معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 486
عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ ، فَقَالَ لَهُ : « صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ - يَعْنِي الْيَوْمَيْنِ - فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ، ثُمَّ أَمَرَهُ ، فَأَقَامَ الظُّهْرَ ، ثُمَّ أَمَرَهُ ، فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرَ ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ الْيَوْمُ الثَّانِي أَمَرَهُ فَأَبْرَدَ بِالظُّهْرِ ، فَأَبْرَدَ بِهَا ، فَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ بِهَا ، وَصَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ أَخَّرَهَا فَوْقَ الَّذِي كَانَ ، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ بَعْدَمَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ، وَصَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا » ، ثُمَّ قَالَ : « أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟ » فَقَالَ الرَّجُلُ : أَنَا ، يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ : « وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ » (رواه مسلم)
نماز کے اوقات
حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے رسول اللہ ﷺ سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ان دونوں دن (آج اور کل) تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو۔ پھر (دوپہر کے بعد) جیسے ہی آفتاب ڈھل گیا آپ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی، پھر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا تو انہوں ظہر کی نماز کے لئے اقامت کہی (اور ظہر کی نماز پڑھی گئی)، پھر (عصر کا وقت آنے پر) آپ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا، انہوں نے (قاعدہ کے مطابق پہلے اذان اور پھر) عصر کے لئے اقامت کہی (اور عصر کی نماز ہوئی) اور یہ اذان اور پھر نماز ایسے وقت ہوئی کہ آفتاب خوب اونچا اور پوری طرح روشن اور صاف تھا (یعنی اس کی روشنی میں وہ فرق نہیں رہا رتھا جو شام کو ہو جاتا ہے) پھر آفتاب غروب ہوتے ہی آپ ﷺ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں مغرب کی اقامت کہی (اور مغرب کی نماز ہوئی) جب جیسے ہی شفق غائب ہوئی تو آپ ﷺ نے ان کو حکم دیا تو انہوں عشاء کی اقامت کہی (اور عشاء کی نماز پڑھی گئی) پھر رات کے ختم پر جیسے ہی صبح صادق نمودار ہوئی آپ ﷺ نے ان کو حکم دیا اور انہوں نے فجر کی اقامت کہی (اور فجر کی نماز پڑھی گئی)، پھر جب دوسرا دن ہوا، تو آپ ﷺ نے بلال کو ٹھنڈے وقت ظہر کی نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ظہر (آج تاخیر کر کے) ٹھنڈے وقت پڑھی جائے تو آپ ﷺ کے حسب حکم انہوں نے ٹھنڈے وقت پر ظہر کی اقامت کہی اور خوب اچھی طرح ٹھنڈا وقت کر دیا (یعنی کافی تاخیر کر کے ظہر اس دن بالکل آخری وقت پڑھی گئی) اور اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھی گئی کہ آفتاب اگرچہ نیچے ہی تھا، لیکن کل گزشتہ کے مقابلہ میں زیادہ مؤخر کر کے پڑھی اور مغرب کی نماز آپ ﷺ نے شفق کے غائب ہو جانے سے پہلے پڑھی اور عشاء تہائی رات گزر جانے کے بعد پڑھی اور فجر کی نماز اسفار کے وقت یعنی (دن کا اجالا پھیل جانے پر) پڑھی۔ پھر آپ ﷺ فرمایا: " وہ صاحب کہاں ہے جو نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرتے تھے؟ "، اس شخص نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں یا رسول اللہ!۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا تمہاری نمازوں کا وقت اس کے درمیان ہےجو تم نے دیکھا۔

تشریح
ان سائل کو نماز کے اوقات کا اول و آخر سمجھانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے صرف زبانی تعلیم و تفہیم کے بجائے یہ بہتر سمجھا کہ عمل کر کے دکھا دیا جائے، اس لئے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ دو دن ہمارے ساتھ پانچوں نمازیں پڑھو، پھر پہلے دن آپ ﷺ نے ہر نماز اول وقت پڑھی اور دوسرے دن ہر نماز جائز حد تک مؤخر کر کے پڑھی اور ان سے فرمایا کہ ہر نماز کے وقت کا اول و آخر یہ ہے جس میں تم نے ہم کو نماز پڑھتا دیکھا۔
Top