معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 474
عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ » (رواه مسلم)
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑ دینے ہی کا فاصلہ ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
نماز کی عظمت و اہمیت اور اس کا امتیاز حضرات انبیاء علیہم السلام، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، کمالات و احسانات اور اس کی تقدیس و توحید کے بارے میں جو کچھ بتلاتے ہیں اس کو مان لینے اور اس پر ایمان لے آنے کا پہلا قدرتی اور بالکل فطری تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کے حضور میں اپنی فدویت و بندگی، محبت و شیفتگی اور محتاجی و دریوزہ گری کا اظہار کر کے اس کا قرب اور اس کی رحمت و رضا حاصل کرے۔ نماز کا اصل موضوع دراصل یہی ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نماز اس مقصد کے حصول کا بہترین وسیلہ ہے۔ اسی لیے ہر نبی کی تعلیم میں اور ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اور اسی لیے اللہ کی نازل کی ہوئی آخری شریعت (شریعت محمدی ﷺ) میں نماز کے شرائط و ارکان اور سنن و آداب اور اسی طرح کے مفسدات و مکروہات وغیرہ کے بیان کا اتنا اہتمام کیا گیا ہے اور اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے جو اس کے علاوہ کسی دوسری طاعت و عبادت کو بھی نہیں دی گئی۔ حضرت شاہ والی اللہ رحمۃ اللہ علیہ حجۃ اللہ البالغہ میں نماز کا بیان شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اعْلَم أَن الصَّلَاة أعظم الْعِبَادَات شَأْنًا وأوضحها برهانا وأشهرها فِي النَّاس وأنفعها فِي النَّفس، وَلذَلِك اعتنى الشَّارِع بِبَيَان فَضلهَا وَتَعْيِين أَوْقَاتهَا وشروطها وأركانها وآدابها ورخصها ونوافلها اعتناء عَظِيم لم يفعل فِي سَائِر أَنْوَاع الطَّاعَات، وَجعلهَا من أعظم شَعَائِر الدّين. (ص 186) یعنی نماز اپنی عظمت شان اور مقتضائے عقل و فطرت ہونے کے لحاظ سے تمام عبادات میں کاص امتیاز رکھتی ہے اور خدا شناس و خدا پرست انسانوں میں سب سے زیادہ معروف و مشہور اور نفس کے تزکیہ اور تربیت کے لیے سب سے زیادہ نفع مند ہے اور اسی لئے شریعت نے اس کی فضیلت اس کے اوقات کے تعیین و تحدید اور اس کے شرائط و ارکان اور آداب و نوافل اور اس کی رخصتوں کے بیان کا وہ اہتمام کیا ہے جو عبادات و طاعات کی کسی دوسری قسم کے لیے نہیں کیا اور انہی خصوصیات و امتیازات کی وجہ سے نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ اور اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر نماز کے اجزاء اصلیہ اور اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وأصل الصَّلَاة ثَلَاثَة أَشْيَاء أَن يخضع الْقلب عِنْد مُلَاحظَة جلال الله وعظمته، ويعبر اللِّسَان عَن تِلْكَ العظمة، وَذَلِكَ الخضوع أفْصح عبارَة وَأَن يُؤَدب الْجَوَارِح حسب ذَلِك الخضوع. یعنی۔ نماز کے اصل عناصر تین ہیں: ایک یہ کہ قلب اللہ تعالیٰ کی لا انتہا عظمت و جلال کے دھیان سے سرافگند ہو۔ اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اس عظمت و کبریائی اور اپنی عاجزی و سرافگندگی کو بہتر سے بہتر الفاظ میں اپنی زبان سے ادا کرے اور تیسرے یہ کہ باقی تمام ظاہری اعضاء کو بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اپنی عاجزی و بندگی کی شہادت کے لئے استعمال کرے۔ پھر اسی سلسلہ کلام میں چند سطر کے بعد فرماتے ہیں: أما الصَّلَاة فَهِيَ المعجون الْمركب من الْفِكر المصروف تِلْقَاء عَظمَة الله .....وَمن الْأَدْعِيَة المبينة إخلاص عمله لله وتوجيه وَجهه تِلْقَاء الله وَقصر الِاسْتِعَانَة فِي الله، وَمن أَفعَال تعظيمية كالسجود وَالرُّكُوع يصير كل وَاحِد عضد الآخر ومكمله والمنبه عَلَيْهِ. یعنی نماز کی حقیقت تین اجزاء سے مرکب ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا تفکر و استحضار۔ دوسرے چند ایسی دعائیں اور ایسے اذکار جن سے یہ بات ظاہر ہو کہ بندہ کی بندگی اور اس کے اعمال خالص اللہ کے لئے ہیں اور وہ اپنا رخ یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف کر چکا ہے اور اپنی حاجات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی مدد چاہتا ہے اور تیسرے چند تعظیمی افعال جیسے رکوع و سجدہ وغیرہ، ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکمیل کرتا ہے اور اس کی طرف دعوت و ترغیب کا ذریعہ بنتا رہتا ہے۔ آگے فرماتے ہیں: وَالصَّلَاة مِعْرَاج الْمُؤمن معدة للتجليات الأخروية..... وَسبب عَظِيم لمحبة الله وَرَحمته..... وَإِذا تمكنت من العَبْد اضمحل فِي نور الله، وكفرت عَنهُ خطاياه..... وَلَا شَيْء أَنْفَع من سوء الْمعرفَة مِنْهَا لَا سِيمَا إِذا فعلت أفعالها وأقوالها على حُضُور الْقلب وَالنِّيَّة الصَّالِحَة..... وَإِذا جعلت رسما مَشْهُورا انفعت من غوائل الرَّسْم نفعا بَينا، وَصَارَت شعار للْمُسلمِ يتَمَيَّز بِهِ من الْكَافِر..... وَلَا شَيْء فِي تمرين النَّفس على انقياد الطبيعة لِلْعَقْلِ وجريانها فِي حِكْمَة مثل الصَّلَاة. ص 72، 73 جلد (1) اس عبارت میں حضرت شاہ صاحب نے نماز کی مندرجہ ذیل چند خصوصیات اور تاثیرات بیان کی ہیں، اول یہ کہ وہ اہل ایمان کی معراج ہے اور آخرت میں تجلیات الہی کے جو نظارے اہل ایمان کو نصیب ہونے والے ہیں، ان کی استعداد اور صلاحیت پیدا کرنے کا وہ خاص ذریعہ ہے۔ دوم یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت و رحمت کے حصول کا وسیلہ ہے۔ سوم یہ کہ نماز کی حقیقت جب کسی بندہ کو حاصل ہو جاتی ہے اور اس کی روح پر نماز کی کیفیت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ بندہ نور الہی کی موجوں میں ڈوب کر گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے (جیسے کہ کوئی میلی کچیلی چیز دریا کی موجوں میں پڑ کر پاک صاف ہو جاتی ہے یا جیسے لوہا آگ کی بھٹی میں رکھ کر صاف کیا جاتا ہے)۔۔۔ چہارم یہ کہ نماز جب حضور قلب اور صادق نیت کے ساتھ پڑھی جائے تو غفلت اور برے خیالات و وساوس کے ازالہ کی وہ بہترین اور بے مثل دوا ہے۔ پنجم یہ کہ نماز کو جب پوری امت مسلمہ کے لیے ایک معروف و مقرر رسم اور عمومی وظیفہ بنا دیا گیا تو اس کی وجہ سے کفر و شرک اور فسق و ضلال کی بہت سی تباہ کن رسوم سے حفاظت کا فائدہ بھی حاصل ہو گیا اور مسلمانوں کا وہ ایک ایسا امتیازی شعار اور دینی نشان بن گیا، جس سے کافر اور مسلم کو پہچانا جا سکتا ہے۔ ششم یہ کہ طبیعت کو عقل کی رہنمائی کا پابند اور اس کا بابع فرمان بنانے کی مشق کا بہترین ذریعہ یہی نماز کا نظام ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کی یہ تمام خصوصیات و تاثیرات رسول اللہ ﷺ کے مختلف ارشادات سے اخذ کی ہیں اور ہر ایک کا حوالہ بھی دیا ہے، لیکن چونکہ وہ پوری حدیثیں آگے اپنی اپنی جگہ پر آنے والی ہیں اس لئے ہم نے شاہ صاحب کے حوالوں کو اس عبارت سے حذف کر دیا ہے۔ نماز کی عظمت و اہمیت اور اس کے امتیاز کے بارے میں جو کچھ مذکورہ بالا اقتباسات میں شاہ صاحب نے فرمایا ہے ہم اس کو بالکل کافی سمجھتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اب ناظرین کرام شاہ صاحب کے ان ارشادات کو ذہن میں رکھ کر نماز سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھیں۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ نماز دین اسلام کا ایسا شعار ہے اور حقیقت ایمان سے اس کا ایسا گہرا تعلق ہے کہ اس کو چھوڑ دینے کے بعد آدمی گویا کفر کی سرحد میں پہنچ جاتا ہے۔
Top