معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 470
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ - أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي ، « فَأَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ ، » ، فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالُوا : أَلَا تَرَى إِلَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ؟ « أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ مَعَهُ ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ » ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ " وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ ، فَقَالَ : حَبَسْتِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ « ، قَالَتْ فَعَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ ، وَقَالَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُولَ ، وَجَعَلَ يَطْعُنُ بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي ، » فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي ، فَنَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ ، فَأَنْزَلَ اللهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَتَيَمَّمُوا " فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ : وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ « مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ » فَقَالَتْ عَائِشَةُ : « فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ » (رواه البخارى ومسلم واللفظ لمسلم)
تیمم کا حکم
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے بیان فرماتی ہیں کہ ایک سفر میں (تحقیقی قول کے مطابق غزوہ ذات الرقاع میں) ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے۔ یہاں تک کہ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش کے مقام پر تھے (یہ دونوں مقام مدینہ طیبہ اور خیبر کے درمیان پڑتے ہیں) تو وہاں میرا ایک ہار (جو درحقیقت میری بڑی بہن اسماء کا تھا، اور میں نے عاریۃً ان سے لے کر گلے میں ڈال لیا تھا، ٹوٹ کر گر گیا اور گویا گم و گیا، میں نے اس کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو کر دی) تو اس کو تلاش کرانے کے لئے آپ ﷺ نے وہاں قیام فرما لیا اور آپ ﷺ کے ساتھ جو لوگ تھے وہ بھی ٹھہر گئے اور اس مقام پر اپنی کا کوئی بندوبست نہیں تھا، تو کچھ لوگوں نے (میرے والد ماجد) ابو بکر صدیقؓ کے پاس جا کر کہا کہ آپ دیکھتے ہیں (آپ کی صاحبزادی) عائشہؓ نے کیا کیا ہے، انہوں نے (ہار گم کر کے) رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے سب ساتھیوں کو یہاں ٹھہرنے پر مجبور کر دیا ہے، حالانکہ نہ یہاں پانی ہے اور نہ لشکر کے ساتھ پانی ہے، پس (والد ماجد) ابو بکر صدیقؓ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھے آرام فرما رہے تھے اور آپ ﷺ کو نیند آ گئی تھی، پس مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا، کہ تو رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے سب ساتھیوں کے یہاں رکنے کا باعث بن گئی اور صورت حال یہ ہے کہ یہاں (قریب میں) کہیں پانی نہیں ہے اور نہ لشکر کے ساتھ پانی کا انتظام ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ۔ والد ماجد نے مجھے خوب ڈانٹا ڈپٹا اور جو اللہ کو منظور تھا، اس وقت انہوں نے مجھے وہ سب کہا اور (غصہ سے) میرے پہلو میں کونچے لگائے، لیکن رسول اللہ ﷺ چونکہ میری ران پر سر رکھے آرام فرما رہے تھے اس لئے میں بالکل نہیں ہلی (کہ میرے حرکت کرنے سے آپ ﷺ کے آرام میں خلل نہ پڑے) پس رسول اللہ ﷺ سوتے رہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے ٓصبح کی ایسے مقام پر اور ایسی حالت میں کہ وہاں پانی کا کوئی بندوبست نہیں تھا، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی، تو سب لوگوں نے تیمم کیا (اور تیمم کر کے نماز ادا کی گئی) تو اسید بن حضیر نے (جو ان نقباء انصار میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر ہجرت سے پہلے بیعت کی تھی) کہا کہ اے آل ابو بکرؓ! یہ تیمم کا حکم تمہاری پہلی برکت نہیں ہے (بلکہ اس سے پہلے بھی تمہارے ذریعہ امت کو برکتیں مل چکی ہیں) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، کہ (اس سب کے بعد) جب اس اونٹ کو اٹھایا گیا جو میری سواری میں تھا، تو میرا وہ ہار اس کے نیچے مل گیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
تیمم بسا اوقات آدمی ایسی حالت اور کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے کہ غسل یا وضو کرنا اس کے لئے مضر ہوتا ہے، اسی طرح کبھی آدمی ایسی جگہ ہوتا ہے کہ غسل یا وضو کے لیے وہاں پانی ہی میسر نہیں ہوتا۔ ان حالات میں اگر بلا غسل اور بلا وضو یوں ہی نماز پڑھنے کی اجازت دے دی جاتی، تو اس کا ایک نقصان تو یہ ہوتا کہ ان اتفاقات سے طبیعتیں ترک طہارت کی عادی بنتیں اور دوسرا اس سے بڑا ضرر یہ ہوتا کہ غسل اور وضو کی پابندی سے اللہ تعالیٰ کے دربار کی حاضری کا جو اہتمام محسوس ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اس حاضری کی عظمت اور اس کے تقدس کا جو تصور ذہم پر چھایا ہوا رہتا ہے وہ مجروح ہوتا، اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت نے مجبوری کے ایسے حالات میں تیمم کو غسل اور وضو کا قائم مقام بنا دیا ہے، اب غسل اور وضو سے مجبور ہونے کے حالات میں جب آدمی نماز کے لئے تیمم کا اہتمام کرے گا تو اس کی عادت اور اس کے ذہن پر ان شاء اللہ اس طرح کا کوئی غلط اثر نہیں پڑے گا۔ ٍتیمم یہ ہے کہ سطح زمین پر یا مٹی کا پتھر یا ریت جیسی کسی چیز پر (یعنی ایسی چیزیں جو سطح زمین پر عموماً ہوتی ہیں، ان میں سے کسی پر) طہارت کی نیت سے ہاتھ مار کر وہ ہاتھ چہرے اور ہاتھوں پر پھیر لئے جائیں، اس طرح بس ہاتھ پھیر لینے سے بس تیمم ہو جاتا ہے، مٹی وغیرہ کا چہرے یا ہاتھوں پر لگنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کا اہتمام کرنا چاہئے کہ مٹی وغیرہ چہرے اور ہاتھوں پر نہ لگے۔ تیمم کی حکمت غسل اور وضو مین اپنی استعمال ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے مجبوری کی حالت میں اس کے بجائے تیمم کا حکم دیا، جس میں مٹی اور پتھر وغیرہ کا استعمال ہوتا ہے، اس کی ایک حکمت تو بعض اہل تحقیق نے یہ بیان کی ہے، کہ پوری زمین کے دو ہی حصے ہیں، ایک بڑے حصے کی سطح پانی ہے، دوسرے حصے کی سطح مٹی، پتھر وغیرہ اس لئے پانی اور مٹی میں خاص مناسبت ہے نیز انسان کی ابتدائی تخلیق بھی مٹی اور پانی ہی سے ہوئی ہے، علاوہ ازیں مٹی ہی ایسی چیز ہے جس کو انسان سمندر کے علاوہ ہر جگہ پا سکتا ہے اور مٹی کو ہاتھ لگا کر منہ پر پھیرنے میں تذلل اور خاکساری بھی ایک خاص شان ہے اور چونکہ انسان کا آخری ٹھکانا مٹی اور خاک ہی ہے اور اس کو خاک ہی میں ملنا ہے، اس لیے تیمم میں موت اور قبر کی یاد بھی ہے۔ والله تعالى اعلم باسرار دينه اس کے بعد تیمم سے متعلق چند حدیثیں پڑھئے! سب سے پہلے صحیحین کی وہ حدیث درج کی جاتی ہے جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے جس میں تیمم کا حکم نازل ہوا۔ تشریح ..... حضرت عائشہ صدیقہؓ کی اس روایت میں جس آیت تیمم کا ذخر ہے اس سے غالباً سورہ نساء کی آیت مراد ہے: وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَيْدِيْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا۰۰۴۳ اور اگر تم بیمار ہو (اور پانی کا استعمال مضرہو) یا تم سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی شخص استنجے سے آیا ہو یا تم نے بیبیوں سے قربت کی ہو اور تم کو پانی نہ ملے، تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو (یعنی اس زمین پر دو ہاتھ مار کے) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو، اللہ تعالیٰ بہت معاف فرمانے والا اور بڑا بخشنے والا ہے۔ یہی مضمون لفظوں کے بہت خفیف فرق کے ساتھ سورہ مائدہ کے دوسرے رکوع میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے اور بعض راویوں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر سورہ مائدہ والی آٰت نازل ہوئی تھی۔ لیکن اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ سورہ نساء والی آیت پہلے نازل ہوئی ہے اور سورہ مائدہ والی بعد میں۔ واللہ اعلم۔
Top