معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 466
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ يَغْتَسِلَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا ، يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَجَسَدَهُ » (رواه البخارى ومسلم)
جمعہ کے دن کا غسل
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر مسلمان پر حق ہے (یعنی اس کے لئے ضروری ہے) کہ ہفتہ کے سات دنوں میں سے ایک دن (یعنی جمعہ کے دن) غسل کرے اس میں اپنے سر کے بالوں کو اور سارے جسم کو اچھی طرح دھوئے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ان دونوں حدیثوں میں جمعہ کے غسل کا تاکیدی حکم ہے اور صحیحین ہی کی ایک اور حدیث میں جو حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے غسل جمعہ کے لئے واجب، کا لفظ بھی آیا ہے لیکن امت کے اکثر ائمہ اور علماء شریعت کے نزدیک اس سے اصطلاحی وجوب مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بھی وہی تاکید ہے جو حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ کی مندرجہ بالا حدیثوں کا مدعا ہے۔ اس مسئلہ کی پوری وضاحت حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے ایک ارشاد سے ہوتی ہے جو انہوں نے بعض اہل عراق کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا۔ سنن ابی داؤد میں حضرت ابن عباسؓ کے مشہور شاگر و عکرمہؒ سے اس سوال و جواب کی پوری تفصیل اس طرح مرسی ہے کہ۔ عراق کے بعض لوگ حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں جمعہ کے دن کا غسل واجب ہے؟ انہوں نے فرمایا میرے نزدیک واجب تو نہیں ہے لیکن اس میں بڑی طہارت و پاکیزگی ہے اور بڑی خیر ہے اس کے لئے جو اس دن غسل کرے اور جو (کسی وجہ سے ان دن) غسل نہ کرے تو (وہ گنہگار نہیں ہو گا کیوں کہ یہ غسل) اس پر واجب نہیں ہے۔ (اس کے بعد حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا) میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غسل جمعہ کے حکم کی شروعات کیسے ہوئی (واقعہ یوں ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں) مسلمان لوگ غریب اور محنت کش تھے، صوف (یعنی اونٹ، بھیڑ وغیرہ کے بالوں سے بنے ہوئے بہت موٹے کپڑے) پہنتے تھے اور محنت مزدوری میں اپنی پیٹھوں پر بوجھ لادتے تھے اور ان کی مسجد (مسجد نبوی) بھی بہت تنگ تھی اور اس کی چھت بہت نیچی تھی اور ساری مسجد بس ایک چھپر کا سائبان تھا (س کی وجہ سے اس میں انتہائی گرمی اور گھٹن رہتی تھی) پس رسول اللہ ﷺ ایک جمعہ کو جب کہ سخت گرمی کا دن تھا گھر سے مسجد تشریف لائے اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ صوف کے موٹے موٹے کپڑوں میں ان کو پسینے چھوٹ رہے تھے اور ان سب چیزوں نے مل ملا کر مسجد کی فضا میں بد بو پیدا کر دی تھی جس سے سب کو تکلیف اور اذیت ہو رہی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے جب یہ بدبو محسوس کی تو فرمایا کہ:۔ « يَأَيُّهَا النَّاسُ إِذَا كَانَ هَذَا الْيَوْمَ فَاغْتَسِلُوا، وَلْيَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَفْضَلَ مَا يَجِدُ مِنْ دُهْنِهِ وَطِيبِهِ » اے لوگو جب جمعہ کا یہ دن ہوا کرے تو تم لوگ غسل کیا کرو اور جو اچھا خوشبودار تیل اور جو بہتر خوشبو جس کو دستیاب ہو وہ لگا لیا کرے۔ (حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں) اس کے بعد خدا کے فضل سے فقر و فاقہ کا وہ دور ختم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خوشحالی اور وسعت نصیب فرمائی، پھر صوف کے وہ کپڑے بھی نہیں رہے جن سے بدبو پیدا ہوتی تھی اور وہ محنت و مشقت بھی نہیں رہی اور مسجد کی وہ تنگی بھی ختم ہو گئی اور اس کو وسیع کر لیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جمعہ کے دن لوگوں کے پسینہ وغیرہ سے جو بدبو مسجد کی فضا میں پیدا ہو جاتی تھی وہ بات نہیں رہی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اس خاص حالت کی وجہ سے جس کی ان کے اس بیان میں تفصیل کی گئی ہے، غسل جمعہ مسلمانوں کےلئے ضروری قرار دیا گیا تھا، اس کے بعد جب وہ حالت نہیں رہی تو اس حکم کا وہ درجہ تو نہیں رہا، لیکن بہرحال اس میں پاکیزگی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اب بھی اس میں خیر اور ثواب ہے۔ یعنی اب وہ مسنون اور مستحب ہے، اور سمرہ بن جندب ؓ کی مندرجہ ذیل حدیث میں غسل جمعہ کی یہی حیثیت صریحاً مذکور ہے۔
Top