معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 438
عَنْ جَابِرِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلَاةُ ، وَمِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ » (رواه احمد)
نماز کے لئے وضو کا حکم
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی طہور (یعنی وضو) ہے۔ (مسند احمد)

تشریح
ان دونوں حدیثوں میں طہور یعنی وضو کو نماز کی کنجی فرمایا گیا ہے۔ گویا جس طرح کوئی شخص کسی مقفل گھر میں کنجی سے اس کا تالا کھولے بغیر داخل نہیں ہو سکتا، اسی طرح بغیر وضو کے نماز میں داخلہ نہیں ہو سلتا۔ ان چاروں حدیثوں کی تعبیر میں اگرچہ کچھ فرق ہے لیکن حاصل اور مدعا سب کا یہی ہے کہ نماز کے قابل قبول ہونے کےلئے واضح شرط ہے۔ نماز چونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور م یں حاضری اور اسے مخاطب و مناجاۃ کی اعلیٰ اور انتہائی شکل ہے، جس کے آگے اس دنیا میں ممکن نہیں، اس لئے اس کے ادب کا حق تو یہ تھا کہ ہر نماز کے لئے سارے جسم کے غسل اور بالکل پاک صاف اچھا لباس پہننے کا حکم دیا جاتا لیکن چونکہ اس پر عمل بہت مشکل ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے از راہِ کرم صرف اتنا ضروری قرار دیا کہ نماز پاک کپڑے پہن کر پڑھی جائے اور سارے جسم کے غسل کے بجائے صرف وضو کر لیا جائے جس میں وہ سارے ظاہری اعضاء دھل جاتے ہیں جو انسان کے جسم میں خاص اہمیت رکھتے ہیں اور اس حیثیت سے وہی سارے جسم کے قائم مقام قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ نیز ہاتھ پاؤں اور چہرہ اور سر یہی وہ اعضاء ہیں جو عام طور پر لباس سے باہر رہتے ہیں اس لئے وضو میں صرف انہی کے دھونے اور مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں وضو نہ ہونے کی حالت میں طبیعت میں جو ایک خاص قسم کا روحانی تکدر اور انقباض ہوتا ہے اور وضو کرنے کے بعد انشراح و انبساط کی ایک خاص کیفیت اور ایک خاص طرح کی لطافت و نورانیت جو انسان کے باطن میں پیدا ہوتی ہے۔ جن بندگانِ خدا کو ان کیفیتوں کا احساس اور تجربہ ہوتا ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ نماز کے لئے وضو کو لازمی شرط قرار دیے جانے کا اصل راز کیا ہے، باقی اتنی بات تو ہم سب عوام بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مقدس اور عالی بارگاہ میں حاضری کا یہ ادب ہے۔ اللہ کے جو بندے صرف اتنی بات سمجھ کر بھی وضو کریں گے۔ ان شاء اللہ وہ بھی اپنے وضو میں ایک خاص لذت و نورانیت محسوس کریں گے۔
Top