معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 434
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " تَفْضُلُ الصَّلَاةُ الَّتِي يُسْتَاكُ لَهَا عَلَى الصَّلَاةِ الَّتِي لَا يُسْتَاكُ لَهَا سَبْعِينَ ضِعْفًا " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
نماز کو قیمتی بنانے میں مسواک کا اثر
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ نماز جس کے لئے مسواک کی جائے اس نماز کے مقابلہ میں جو بلا مسواک کے پڑھی جائے ستر گنی فضیلت رکھتی ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
پہلے بھی بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ عربی زبان اور محاورمیں ستر (اور اسی طرح بعض اور عدد بھی) مطلق کثرت اور بہتات کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں، غالباً اس حدیث مین بھی سبعین کا لفظ اس محاورہ کے مطابق کثرت اور بہتات ہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ جو نماز مسواک کر کے پڑھی جائے وہ اس نماز کے مقابلے میں جو بلا مسواک کے پڑھی جائے بدرجہا اور بہت زیادہ افضل ہے۔ اور اگر سبعین سے مراد ستر کا خاص عدد ہو تب بھی کوئی استبعاد کی بات نہیں ہے۔ جب کوئی بندہ مالک الملک اور احکم الحاکمین کے دربار میں حاضری اور نماز کے ذریعہ اس سے مخاطبت اور مناجاۃ کا ارادہ کرے اور یہ سوچے کہ اس کی عظمت و کبریائی کا حق تو یہ ہے کہ مشک و گلاب سے اپنے دہن و زبان کو دھو کر اس کا نام نامی کیا جائے اور اس کے حضور میں کچھ عرض کیا جائے، لیکن چونکہ اس مالک نے اپنی عنایت و رحمت سے صرف مسواک ہی کا حکم دیا ہے اس لئے میں مسواک کرتا ہوں، بہر حال جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اس احساس اور ادب کے اس جذبہ سے نماز کے لئے مسواک کرے تو وہ نماز اگر اس نماز کے مقابلہ میں جس کے لئے مسواک نہ کی گئی ہو ستر یا اس سے بھی زیادہ درجے افضل قرار دی جائے تو بلکل حق ہے۔ حقیقت تو یہ ہے؎ ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است فائدہ ..... مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت عائشہؓ کی یہ حدیث صرف بیہقی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے لیکن منذری نے ترغیب میں اس حدیث کو حضرت عائشہ ہی کی روایت سے خفیف لفظی فرق کے ساتھ درج کر کے لکھا ہے۔ رواہ احمد والبزار و ابو یعلی وابن خزیمہ فی صحیحہ۔ وراہ الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الاسناد۔ اور قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث ابو نعیم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت سے اور دوسری حضرت جابرؓ کی روایت سے نقل کی ہے اور پہلی کی سند کو جید اور دوسری کی سند کو صحیح کہا ہے۔
Top