معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 422
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا ، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟ » قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ : « إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ » (رواه مسلم)
تکلیف اور ناگواری کے باوجود کامل وضو
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو وہ اعمال نہ بتاؤں جن کی برکت سے اللہ گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجے بلند فرماتا ہے؟ حاضرین صحابہؓ نے عرض کیا، حضرت ضرور بتلائیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا (۱) تکلیف اور ناگواری کے باوجود پوری طرح کامل وضو کرنا۔ (۲) اور مسجدوں کی طرف قدم زیادہ پڑنا (۳) اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر رہنا، پس یہی ہے حقیقی رباط یہی ہے اصلی رباط۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تین عملوں کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ ان اعمال سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اور درجوں میں ترقی ہوتی ہے ایک یہ کہ وضو کرنے میں اگر کسی وجہ سے تکلیف اور مشقت ہو تو اس کے باوجود وضو پورا پورا کیا جائے اور اس میں خلاف سنت اختصار سے کام نہ لیا جائے۔ مثلاً سردی کا موسم ہے اور پانی ٹھنڈا ہے، یا پانی کم ہے جو پورا وضو سنت کے مطابق کرنے اور ہر عضو کو تین تین دفعہ دھونے کے لئے کافی نہیں ہو سکتا، بلکہ ایسا کرنے کے لیے پانی کچھ دور چل کر لانا پڑتا ہے تو ایسی صورت میں تکلیف اور مشقت اٹھا کر سنت کے مطابق کامل وضو کرنا ایسا محبوب عمل ہے جس کی برکت سے بندے کو گناہوں سے پاک صاف کر دیا جاتا ہے اور اس کے درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں ..... دوسرا عمل آپ ﷺ نے بتایا " مسجد کی طرف قدموں کا زیادہ پڑنا " یعنی مسجد سے زیادہ تعلق رکھنا اور نماز کے لئے بار بار مسجد کی طرف جانا اور ظاہر ہے کہ جس مکان مسجد سے جتنے زیادہ فاصلے پر ہو گا اس کا حصہ اس سعادت میں اسی حساب سے زیادہ ہو گا ..... اور تیسرا عمل آپ ﷺ نے بتایا " ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر رہنا " اور دل کا اسی میں لگا رہنا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ حال اسی بندہ کا ہو گا جس کے دل کو نماز سے چین و سکون ملتا ہو گا اور رسول اللہ ﷺ کی " قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ " والی کیفیت کا کوئی ذرہ جس کو نصیب ہو گا۔ حدیث کے آخر میں آپ ﷺ نے فرمایا " یہی حقیقی رباط ہے، یہی اصلی رباط ہے " رباط کے معروف معنی اسلامی سرحد پر پڑاؤ کے ہیں۔ دشمن کے حملہ سے حفاظت کے لئے جو مجاہدین سرحد پر متعین کر دئیے جاتے ہیں ان کے پڑاؤ کو رباط کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بڑا عظیم الشان عمل ہے، ہر وقت جان خطرہ میںٰ رہتی ہے ..... اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ان تین اعمال کو غالباً اس لحاظ سے " رباط " فرمایا ہے کہ ان تینوں عملوں کا اہتمام شیطان کی غارت گری سے حفاظت کی بڑی محکم تدبیر ہے اور شیطانی حملوں سے اپنے ایمان کی حفاظت مقصدی لحاظ سے ملکی سرحدات کی حفاظت سے بھی اہم ہے۔ واللہ اعلم۔
Top