معارف الحدیث - کتاب الطہارت - حدیث نمبر 416
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلاَءِ ، قَالَ : غُفْرَانَكَ. (رواه الترمذى وابن ماجه)
قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد کی دُعا
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب آپ ﷺ حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلاء سے باہر آتے تو اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے " غُفْرَانَكَ " (اے اللہ تیری پوری مغفرت کا طالب و سائل ہوں)۔ (ترمذی و سنن ابن ماجہ)

تشریح
قضاء حاجت سے فارغ ہونے کے بعد آپ ﷺ کی اس مغفرت طلبی کی متعدد توجیہیں کی گئی ہیں، ان میں سب سے زیادہ لطیف اور دل کو لگنے والی توجیہ اس عاجز کے نزدیک یہ ہے کہ انسان کے پیٹ میں جو گندہ فُضلہ ہوتا ہے وہ ہر انسان کے لئے ایک قسم کے انقباض اور گرانی کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ وقت پر خارج نہ ہو تو اس سے طرح طرح کی تکلیفیں اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اور اگر طبعی تقاضے کے مطابق پوری طرح خارج ہو جائے تو آدمی ایک ہلکا پن اور ایک خاص قسم کا انشراح محسوس کرتا ہے اور اس کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا ہے ..... اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ صحیح احساس رکھنے والے عارفین کے لئے بالکل یہی حال گناہوں کا ہے وہ ہر طبعی انقباض اور دنیا کے ہر اندرونی اور بیرونی بوجھ اور ہر گرانی سے زیادہ گناہوں کے بوجھ اور ان کی گرانی اور اذیت کو محسوس کرتے ہیں اور گناہوں کے بارے اپنی پیٹھ کے ہلکا ہونے کی فکر ان کو بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ ہم جیسے عام انسانوں کو پیٹ کی آنتوں سے گندے فضلے کے خارج ہو جانے کی، پس رسول اللہ ﷺ جب اس بشری تقاضے سے فارغ ہوتے اور انسانی فطرت کے مطابق طبیعت ہلکی اور منشرح ہوتی تو مذکورہ بالا احساس کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے کہ جس طرح تو نے اس گندے فضلے کو میرے جسم سے خارج کر کے میری طبیعت کو ہلکا کر دیا اور مجھے راحت و عافیت عطا فرمائی اسی طرح میرے گناہوں کی پوری پوری مغفرت فرما کر میری روح کو پاک صاف اور گناہوں کے بوجھ سے میری پیٹھ کو ہلکا کر دے۔ رہا یہ سوال کہ گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود اور " لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ " کے قرآنی اعلان کے بعد بھی آپ ﷺ اپنے گناہوں سے استغفار کیوں فرماتے تھے تو اس کا جواب تفصیل سے ان شاء اللہ آگے کتاب الصلاۃ میں تہجد کے بیان میں آئے گا۔
Top