معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 394
عَنْ شَدَّادِ ابْنِ اَوْسٍ : قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَنْ صَلَّى يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ ، وَمَنْ صَامَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ ، وَمَنْ تَصَدَّقَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ " (رواه احمد)
ریا ایک درجہ کا شرک اور ایک قسم کا نفاق ہے
شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے، جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی اُس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا اُس نے شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ خیرات کیا اُس نے شرک کیا۔ (مسند احمد)

تشریح
حقیقی شرک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات یا اس کے افعال اور اس کے خاص حقوق میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے یا اللہ کے سوا کسی اور کی بھی عبادت کی جائے، یہ وہ " شرک حقیقی " اور " شرک جلی " اور " شرک اکبر " ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں اعلان فرمایا گیا ہے، اور ہم مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے کہ اس کا کرنے والا ہرگز ہرگز نہیں بخشا جائے گا۔ لیکن بعض اعمال اور اخلاق ایسے بھی ہیں جو اگرچہ اس معنی کے شرک نہیں ہیں لیکن اُن میں اس شرک کا تھوڑا بہت شائبہ ہے، اُن ہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اللہ کی عبادت یا کوئی اور نیک کام اللہ کی رضا جوئی اور اس کی رحمت طلبی کے بجائے لوگوں کے دکھاوے کے لیے کرے، یعنی اس غرض سے کرے کہ لوگ اس کو عبادت گذار اور نیکو کار سمجھیں اور اس کے معتقد ہو جائیں، اسی کو ریا کہا جاتا ہے، یہ اگرچہ حقیقی شرک نہیں ہے لیکن ایک درجہ کا شرک اور ایک قسم کا نفاق اور سخت درجہ کا گناہ ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس کو " شرک خفی " اور ایک اور حدیث میں " شرک اصغر " کہا گیا ہے۔ (یہ دونوں حدیثیں آگے درج کی جا رہی ہیں)۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات کا ذکر صرف مثال کے طور پر کیا گیا ہے، ورنہ ان کے علاوہ بھی جو نیک عمل لوگوں کے دکھاوے کے لئے اور ان کی نظروں میں معزز و محترم بننے کے لئے یا اُن سے کوئی دنیوی فائدہ ھاصل کرنے کے لئے کیا جائے گا وہ بھی ایک درجہ کا شرک ہی ہو گا، اور اس کا کرنے والا بجائے ثواب کے خدا کے سخت عذاب کا مستحق ہو گا۔
Top