معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 393
عَنْ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " بَيْنَمَا ثَلاَثَةُ نَفَرٍ يَتَمَاشَوْنَ ، أَخَذَهُمُ المَطَرُ ، فَمَالُوْا إِلَى غَارٍ فِي الْجَبَلِ ، فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ ، فَاطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ : انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا لِلَّهِ صَالِحَةً ، فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يُفَرِّجُهَا ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ : اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ ، وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ ، كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ ، فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ فَحَلَبْتُ ، بَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ وُلْدِىْ ، وَاَنَّهُ قَدْ نَآئ بِىَ الشَّجَرُ فَمَا اَتَيْتُ حَتَّى أَمْسَيْتُ ، فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا ، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ ، فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا ، وَأَكْرَهُ أَنْ اَبْدَأَ بِالصَّبِيَّةِ قَبْلَهُمَا ، وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّى طَلَعَ الفَجْرُ ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ . فَفَرَجَ اللَّهُ لَهُمْ حَتَّى يَرَوْنَ السَّمَاءَ . قَالَ الثَّانِي : اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ أُحِبُّهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ ، فَطَلَبْتُ إِلَيْهَا نَفْسَهَا ، فَأَبَتْ حَتَّى آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ ، فَسَعَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُ مِائَةَ دِينَارٍ فَلَقِيتُهَا بِهَا ، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ : يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ ، وَلاَ تَفْتَحِ الخَاتَمَ ، فَقُمْتُ عَنْهَا ، اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَاَخْرِجْ لَنَا مِنْهَا . فَفَرَّجَ لَهُمْ فُرْجَةً . وَقَالَ الآخَرُ : اللَّهُمَّ إِنِّي كُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ ، فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ قَالَ : أَعْطِنِي حَقِّي ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَقَّهُ فَتَرَكَهُ وَرَغِبَ عَنْهُ ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا ، فَجَاءَنِي فَقَالَ : اتَّقِ اللَّهَ وَلاَ تَظْلِمْنِي وَأَعْطِنِي حَقِّي ، فَقُلْتُ : اذْهَبْ إِلَى البَقَرِ وَرَاعِيهَا ، فَقَالَ : اتَّقِ اللَّهَ وَلاَ تَهْزَأْ بِي ، فَقُلْتُ : إِنِّي لاَ أَهْزَأُ بِكَ ، فَخُذْ ذَلِكَ البَقَرَ وَرَاعِيَهَا ، فَأَخَذَهُ فَانْطَلَقَ بِهَا ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ ، فَاَفْرِجْ مَا بَقِيَ . فَفَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُمْ " (رواه البخارى ومسلم)
اخلاص کی برکت اور تاثیر و طاقت
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ: " تین آدمی کہیں چلے جا رہے تھے کہ اُن کو مینہ (بارش) نے آ لیا، وہ پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے، پہاڑ سے غار کے منہ پر ایک پتھر کی چٹان آ پڑی اور غار کو بند کر دیا، تینوں میں سے ایک نے دوسروں سے کہا، اپنے اُن نیک عملوں پر نظر ڈالو جو خاص طور پر خدا کے لئے کئے ہوں، اور اُس عمل کے وسیلہ سے خدا سے دعا مانگو، اُمید ہے کہ خدا وند تعالیٰ اس پتھر یا اس مصیبت کو دور کر دے۔ ایک نے ان میں سے کہا اے اللہ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میرے کئی چھوٹے بچے تھے، میں بکریاں وغیرہ چرایا کرتا تھا کہ ان کا دودھ ان سب کو پلاؤں جب شام ہو جاتی تو میں گھر آتا دودھ دوہتا اور سب سے پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا پھر بچوں کو دیتا، ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ چراگاہ کے درخت مجھ کو دُور لے گئے (یعنی بکریوں کو چراتا چراتا میں دور نکل گیا) اور وقت پر میں گھر واپس نہ آ سکا یہاں تک کہ شام ہو گئی، جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ میرے ماں باپ دونوں سو گئے ہیں، میں نے حسب معمول دودھ دوہا پھر دودھ کا برتن لے کر ماں باپ کے پاس پہنچا، اور اُن کے سرہانے کھڑا ہوگیا، مجھ کو اُن کو جگانا بھی بُرا معلوم ہوا، اور یہ بھی کہ ماں باپ سے پہلے بچوں کو دودھ پلا دوں، بچے میرے پاؤں کے پاس پڑے بھوک سے روتے اور چلاتے تھے، اور میں دودھ لئے کھڑا تھا، صبح تک یہی کیفیت رہی یعنی میں دودھ لئے کھڑا رہا، اور بچے روتے رہے، اور ماں باپ پڑے سوتے رہے، اے اللہ! تو جانتا ہے کہ اگر میں میں نے یہ کام محض تیری رضا مندی اور خوشنودی کے لئے کیا تھا تو تو اس پتھر کو اتنا کھول دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں، چنانچہ خداوند تعالیٰ نے پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ آسمان نظر آنے لگا۔ دوسرے شخص نے کہا اے اللہ! میرے چچا کی ایک بیٹی تھی میں اُس سے انتہائی محبت رکھتا تھا، ایسی محبت جیسی کسی مرد کو کسی عورت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہو سکتی ہے، میں نے اُس سے جماع کی خواہش ظاہر کی، اُس نے کہا کہ جب تک سو اشرفی نہ دو گے ایسا نہیں ہو سکتا، میں نے کوشش شروع کی، اور سو اشرفیاں جمع کر لیں، اور اُن کو لیکر میں اُس کے پاس پہنچا، پھر جب میں اُس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا (یعنی جماع کے لئے) تو اُس نے کہا کہ اے خدا کے بندے خدا سے ڈر اور مُہر کو نہ توڑ! میں خدا کے خوف سے فوراً اٹھ کھڑا ہوا (یعنی اُس سے جماع نہیں کیا) اے اللہ! اگر تیرے نزدیک میرا یہ فعل محض تیری رضا مندی اور خوشنودی کے لئے تھا تو اس پتھر کو ہٹا دے اور ہمارے لئے راستہ کھول دے، خداوند تعالیٰ نے پتھر کو تھوڑا سا اور ہٹا دیا۔ تیسرے شخص نے کہا اے اللہ! میں نے ایک شخص کو مزدوری پر لگایا تھا، ایک فرق (پیمانہ) چاول کے معاوضہ پر، جب وہ شخص اپنا کام ختم کر چکا تو کہا میری مزدوری مجھ کو دلوائیے؟ میں اُس کی مزدوری دینے لگا تو وہ اس کو چھوڑ کر چلا گیا، اور پھر اپنے حق کو لینے کے لئے نہ آیا، تو میں نے اس کی مزدوری کے چاولوں سے کاشت شروع کر دی، اور ہمیشہ کاشت کرتا رہا، یہاں تک کہ اُن چاولوں کی قیمت سے میں نے بہت سے بیل اور اُن کے چرواہے جمع کر لئے۔ پھر مدت کے بعد وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہا، خدا سے ڈر اور مجھ پر ظلم نہ کر، اور میرا حق میرے حوالہ کر، میں نے کہا کہ ان بیلوں اور چرواہوں کو لے جا (کہ وہ تیرا حق ہے) اُس نے کہا خدا سے ڈر اور مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا، ان بیلوں اور چرواہوں کو لے جا، یہ سب تیرے ہی ہیں، چنانچہ اُس نے اُن سب کو جمع کیا اور لے کر چلا گیا۔ اے اللہ! اگر تیرے نزدیک میرا یہی فعل محض تیری خوشنودی اور رضا مندی کے لئے تھا، تو تو اس پتھر کو بالکل ہٹا دے، چنانچہ خداوند تعالیٰ نے پتھر کو ہٹا دیا اور راستہ کھول دیا "۔

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں تین صاحبوں کا قصہ بیان فرمایا ہے، بظاہر کسی اگلے پیغمبر کے امتی تھے، حضور ﷺ نے اپنی امت کو سبق آموزی کے لئے اس قصہ کو بیان فرمایا۔ اس واقعہ میں اللہ کے ان بندوں نے اپنے جن اعمال کو خدا کے حضور میں پیش کر کے اُس سے دعا کی ہے اُن کی چند خصوصیتیں قابلِ لحاظ ہیں۔ سب سے پہلی اور سب سے اہم خصوصیت جس کا حدیث میں صراحۃً ذکر بھی ہے یہ ہے کہ تینوں عمل صرف اللہ کی رضا جوئی میں کئے گئے تھے اور ان اعمال کی اسی خصوصیت کی بنا پر ان بندوں نے اللہ کے حضور میں ان کو پیش کیا تھا۔ دوسری ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ تینوں عمل اللہ کے حکم و مرضی کے مقابلے میں اپنے نفس کی چاہت کو دبانے اور قربان کرنے کی اعلیٰ مثال ہیں۔ ذرا سوچئے پہلے شخص کا مجاہدہ نفس کتنا سخت ہے، دن بھر وہ جانوروں کو جنگل میں چراتا رہا ہے، اور شام کو دیر سے تھکا ہارا آیا ہے، قدرتی طور پر اس کا جی سونے کو بے حد چاہتا ہو گا۔ بلکہ وہ سونے کے لئے مضطر اور بے قرار ہو گا، لیکن چونکہ ماں باپ بلا دودھ پئے سو گئے تھے، اور یہ اللہ کی رضا اسی میں سمجھتا تھا کہ جس وقت نیند سے ان کی آنکھ کھلے، یہ اُن کو دودھ پلا دے، اس لئے یہ شخص رات بھر دودھ کا برتن ہاتھ میں لئے ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ اور پھر اس کے بچے اس کے قدموں میں پڑے بھوک سے روتے چلاتے رہے، لیکن اس نے ماں باپ کے حق کو مقدم جان کر اللہ ہی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہ مجاہدہ بھی کیا کہ بوڑھے ماں باپ سے پہلے اپنے پیارے بچوں کو بھی دودھ نہ پلایا، یہاں تک کہ اسی حال میں صبح ہو گئی۔ اسی طرح دوسرے شخص کے عمل کی یہ خصوصیت بھی ظاہر ہے۔ ایکجوان ایک لڑکی سے عشق رکھتا ہے اور جب ایک بیش قرار رقم طے ہو جاتی ہے، اور کسی طرح وہ رقم مہیا کر کے اس کو دے بھی دیتا ہے اور زندگی کی سب سے بڑی تمنا پوری کرنے کا اُسے پورا موقع مل جاتا ہے اور کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی، تو ٹھیک اُس وقت اللہ کا نام بیچ میں آتا ہے اور وہ بندہ اپنے نفس کی خواہش پوری کئے بغیر اللہ سے ڈر کر اور اس کی رضا طلبی میں اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ہر نفس رکھنے والا انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ کتنا سخت مجاہدہ ہے، اور اللہ کی رضا کے مقابلے میں خواہش نفس قربان کرنے کی یہ کتنی اعلیٰ مثال ہے۔ اسی طرح تیسرے شخص کے عمل کی یہ خصوصیت بھی ظاہر ہے۔ ایک مزدور کے چند سیر چاول ایک شخص کے پاس رہ گئے اُس نے انہی چاولوں کو اپنی زمین میں بو دیا، پھر جو پیداوار ہوئی اس کو اس نے اُسی مزدور کی ملکیت قرار دے کر اُسی کے حساب میں اُس کو لگاتا اور بڑھاتا رہا یہاں تک کہ اس سے اتنی دولت فراہم ہو گئی، کہ جانوروں کا ایک ریوڑ کا ریوڑ ہوگیا۔ پھر جب کچھ مدت کے بعد وہ مزدور آیا تو اس امانت دار اور نیک کردار بندہ نے وہ ساری دولت جو خود اس کی اپنی محنت اور توجہ سے فراہم ہوئی تھی وہ سب کی سب اُس مزدور کے حوالہ کر دی، ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ اُس وقت شیطان نے دل میں کیسے کیسے وسوسے ڈالے ہوں گے، اور اپنے نفس کی یہ کتنی شدید خواہش ہوگی کہ یہ دولت جو صرف اپنی محنت سے پیدا کی گئی ہے، اور جس کا اُس مزدور کو کئی علم بھی نہیں ہے، اس کو اپنے ہی پاس رکھا جائے لیکن اللہ کے اس بندے نے رضا الہٰی کی طلب میں اپنے نفس کی اس خواہش کو قربان کیا اور وہ ساری دولت اس بے چارے مزدور کے حوالے کر دی۔ اسی طرح ان تینوں عملوں کی ایک خصوصیت یہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اصطلاحی اور عرفی عبادت نہیں ہے، بلکہ ایک کا تعلق بابِ معاشرت سے ہے، ایک کا بابِ معاملت سے اور ایک کی نوعیت یہ ہے کہ اللہ کے ایک بندہ نے خدا سے ڈر کر اور اس کی رضا جوئی میں ایک ایسے گناہ کو چھوڑا ہے جو اُس کی انتہائی تمنا اور خواہش تھی اور جس کے سارے اسباب بھی اُس نے فراہم کر لئے تھے۔ اس حدیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اگر بندہ اپنے کسی نیک عمل کے متعلق یہ اندازہ رکھتا ہو کہ وہ اخلاص کی کیفیت کے ساتھ ادا ہوا ہے تو اپنی دعا میں بطور وسیلہ کے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اُس کو پیش کر سکتا ہے۔ اخلاص و للہیت (یعنی ہر نیک عمل کا اللہ کی رضا اور رحمت کی طلب میں کرنا) جس طرح ایمان و توحید کا تقاضا اور عمل کی جان ہے اسی طرح ریا و سمعہ یعنی مخلوق کے دکھاوے اور دنیا میں شہرت اور ناموری کے لئے نیک عمل کرنا ایمان و توحید کے منافی اور ایک قسم کا شرک ہے۔
Top