معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 391
عَنْ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْكُهُ اسْتِخَارَةَ اللهِ ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ . (رواه احمد والترمذى)
اللہ کے فیصلوں پر دل سے راضی رہنا بندے کی سعادت و خوش نصیبی ہے اور ناراض رہنا شقاوت و بدبختی ہے
حضرت سعد ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: آدمی کی نیک بختی اور خوش نصیبی میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے جو فیصلہ ہو وہ اُس پر راضی رہے، اور آدمی کی بدبختی اور بدنصیبی میں سے یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے خیر اور بھلائی کا طالب نہ ہو اور اس کی بدنصیبی اور بدبختی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے ناخوش ہو۔ (مسند احمد، جامع ترمذی)

تشریح
اللہ کے فیصلہ اور اس کی تقدیر سے بعض اوقات بندہ پر ایسے حالات آتے ہیں جو اُس کی طبیعت اور چاہت کے خلاف ہوتے ہیں، ایسے موقع پر بندہ کی سعادت اور نیک بختی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علیم کل اور حکیم مطلق اور رؤف بالعباد یقین کرتے ہوئے اُس کے فیصلہ پر راضی رہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے " عَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ " (ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو اور حقیقت اور انجام کے لحاظ سے اس میں تمہارے لئے بہتری ہو، اور اسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسن کرو اور چاہو اور حقیقت اور انجام کے لحاظ سے اس میں تمہارے لئے برائی اور خرابی ہو، علمِ حقیقی ٓصرف اللہ کو ہے، اور تم بے خبر ہو) دوسری بات اس حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ بندہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے برابر یہ دعا کرتا رہے کہ اس کے نزدیک بندہ کے لئے جو خیر ہو اُسی کا اس کے لئے فیصلہ کیا جائے حضور نے فرمایا بندہ کا اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر نہ مانگنا بندہ کی بڑی بدنصیبی اور بدبختی ہے۔ اسی طرح یہ بھی بدبختی اور بدنصیبی ہے کہ بندہ اللہ کی قضا و قدر اور اس کے فیصلوں سے ناخوش اور ناراض ہو۔ ظاہر ہے کہ " رضا بالقضا " کا یہ مقام بندہ کو جب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی اُن صفات کمال و جمال پر پورا پورا ایمان و یقین حاصل ہو جو قرآن مجید نے اور رسول اللہ ﷺ نے بتلائی ہیں، اور پھر اس معرفت اور اس ایمان و یقین کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں رچ بس گئی ہو۔ ایمان و محبت کے اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد بندہ کے دل کی صدا یہ ہوتی ہے ؎ زندہ کنی عطائے تو ور بکشی فدائے تودل شدہ مبتلائے تو ہر چہ کنی رضائے تو
Top