معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 390
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى أَهْلِهِ ، فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنَ الْحَاجَةِ ، خَرَجَ إِلَى الْبَرِيَّةِ ، فَلَمَّا رَأَتِ امْرَأَتُهُ قَامَتْ إِلَى الرَّحَى ، فَوَضَعَتْهَا ، وَإِلَى التَّنُّورِ فَسَجَرَتْهُ ، ثُمَّ قَالَتْ : اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا فَنَظَرَتْ فَإِذَا الْجَفْنَةُ قَدِ امْتَلَأَتْ . قَالَ : وَذَهَبَتْ إِلَى التَّنُّورِ فَوَجَدَتْهُ مُمْتَلِئًا . قَالَ : فَرَجَعَ الزَّوْجُ ، قَالَ : أَصَبْتُمْ بَعْدِي شَيْئًا؟ قَالَتِ امْرَأَتُهُ : نَعَمْ مِنْ رَبِّنَا . وَقَامَ إِلَى الرَّحَى . فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : « أَمَا أَنَّهُ لَوْ لَمْ يَرْفَعْهَا ، لَمْ تَزَلْ تَدُورُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ » (رواه احمد)
ایک صحابی اور ان کی بیوی نے سخت حاجتمندی کے وقت اللہ تعالی سے رزق کی دعا کی اور ان کو اسی وقت خزانہ غیب سے رزق ملا
حضرت ابو رہریرہ ؓ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ (رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں) اللہ کا ایک بندہ اپنے اہل و عیال کے پاس پہنچا جب اس نے ان کو فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا تو (الحاح کے ساتھ اللہ سے دعا کرنے کے لئے) جنگل کی طرف چل دیا، جب اس کی نیک بیبی نے دیکھا (کہ شوہر اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لئے گئے، تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر بھروسہ کر کے اس نے تیاری شروع کر دی) وہ اٹھ کر چکی کے پاس آئی اور اس کو تیار کیا (تا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہیں سے کچھ غلہ آئے تو جلدی سے اس کو پیسا جا سکے) پھر وہ تنور کے پاس گئی اور اس کو گرم کیا (تا کہ آتا پس جانے کے بعد پھر روٹی پکانے میں دیر نہ لگے) پھر اس نے خود بھی دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے مالک ہمیں رزق دے۔ اب اس کے بعد اس نے دیکھا کہ چکی کے گردا گرد آٹے کے لئے جو جگہ بنی ہوتی ہے (جس کو چکی کا گرانڈ اور کہیں کہیں چکی کی بھِر بھی کہتے ہیں) وہ آٹے سے بھری ہوئی ہے، پھر وہ تنور کے پاس گئی تو دیکھا کہ تنور بھی روٹیوں سے بھرا ہوا ہے (اور جتنی روٹیاں اس میں لگ سکتی ہیں، لگی ہوئی ہیں) اس کے بعد اس بیوی کے شوہر واپس آئے اور بیوی سے پوچھا کہ میرے جانے کے بعد تم نے کچھ پایا؟ بیوی نے بتایا کہ ہاں ہمیں اپنے پروردگار کی طرف سے ملا ہے (یعنی براہِ راست خزانہ غیب سے اس طرح ملا ہے) یہ سُن کر یہ بھی چکی کے پاس گئے (اور اس کو اٹھا کر دیکھا یعنی تعجب اور شوق میں غالباً اس کا پاٹ اٹھا کر دیکھا) پھر جب یہ ماجرا رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ معلوم ہونا چاہئے کہ اگر یہ اس کو نہ اُٹھا کر نہ دیکھتے تو چکی قیامت تک یوں ہی چلتی رہتی اور اس سے ہمیشہ آٹا نکلتا رہتا۔ (مسند احمد)

تشریح
اس روایت میں جو واقعہ نقل کیا گیا ہے وہ خوارق کے قبیل سے ہے، اس دنیا میں عام طور سے اللہ تعالیٰ کی عطائیں اسباب ہی کے سلسلہ سے ملتی ہیں، لیکن کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ تماشا بھی ظہور میں آتا ہے کہ عالمِ اسباب کے عام دستور کے خلاف براہِ راست اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے، اس کے لئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں۔ پھر اس قسم کے واقعات اگر اللہ کے کسی پیغمبر کے ہاتھ پہ ظاہر ہوں تو ان کو معجزہ کہا جاتا ہے، اور اگر ان کے کسی متبع اُمتی کے ہاتھ پہ ایسے واقعہ کا ظہور ہو، تو اس کو کرامت کہا جاتا ہے۔ ان دونوں میاں بیوی نے اللہ تعالیٰ پر پوری طرح یقین کر کے اس سے روزی مانگی تھی، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو اس طرح قبول کیا کہ خارقِ عادت طریقہ سے ان کے لئے روزی کا سامان بھیجا، غیب سے چکی میں آ گیا اور تنور میں روٹیاں لگ گئیں۔ جو لوگ یقین اور توکل کی دولت سے محروم اور اللہ کی قدرت کی وسعتوں سے نا آشنا ہیں ان کے دلوں میں شاید اس قسم کی روایت پر شبہات اور وساوس پیدا ہوتے ہوں لیکن اللہ کے جن بندوں کو یقین و توکل اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کا کچھ حصہ ملا ہے، اُن کے لیے تو ایسے واقعات میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے " وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ " (سورہ طلاق) اور جو کوئی اللہ پر توکل کرے (جیسا کہ توکل کا حق ہے) تو اللہ اس کے لئے اور اس کے کام بنانے کے لئے کافی ہے۔
Top