معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 389
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيْسَ مِنْ شَيْءٍ يُقَرِّبُكُمْ اِلَى الْجَنَّةِ , وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ , وَلَيْسَ شَيْءٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ , وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ , وَأَنَّ الرُّوحَ الْأَمِينَ (وَإِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ) نَفَثَ فِي رُوعِيَ أَنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَكْمِلَ رِزْقَهَا , اَلَا فَاتَّقُوا اللهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ , وَلَا يَحْمِلَنَّكُمُ اسْتِبْطَاءُ الرِّزْقِ أَنْ تَطْلُبُوهُ بِمَعَاصِي اللهِ , فَإِنَّهُ لَا يُدْرَكُ مَا عِنْدَ اللهِ إِلَّا بِطَاعَتِهِ " (رواه البغوى فى شرح السنة والبيهقى فى شعب الايمان)
رسول اللہ ﷺ کی وصیت کہ اپنی ضرورتوں کیلئے صرف اللہ پر نظر رکھو اور اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اے لوگو! نہیں ہے کوئی چیز ایسی جو جنت سے تم کو قریب اور دوزخ سے تم کو بعید کرے، مگر اس کا حکم میں تم کو دے چکا ہوں، اور اسی طرح نہیں ہے کوئی چیز ایسی جو دوزخ سے تم کو قریب اور جنت سے بعید کرے، مگر میں تم کو اس سے منع کر چکا ہوں (یعنی کوئی نیکی اور ثواب کی بات ایسی باقی نہیں رہی جس کی تعلیم میں نے تم کو نہ دے دی ہو، اور کوئی بدی اور گناہ کی بات ایسی نہیں رہی جس کی میں نے تم کو ممانعت نہ کر دی ہو، اس طرح اوامر و نواہی کی پوری تعلیم میں تم کو دے چکا ہوں، اور اللہ کے تمام مثبت و منفی احکام جو مجھے ملے تھے وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں) اور الروح الامین نے اور ایک روایت میں ہے کہ روح القدس نے (اور دونوں سے مراد جبرئیل امین ہیں) ابھی میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے (یعنی اللہ کی طرف سے یہ وحی پہنچائی ہے) کہ کوئی متنفس اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہ کر لے (یعنی ہر شخص کو اس کے مرنے سے پہلے اس کا مقدر رزق ضرور بالضرور مل جاتا ہے، اور جب تک رزق پورا نہ ہو جائے اُس کو موت آ ہی نہیں سکتی ہے) لہذا اے لوگو! خدا سے ڈرو اور تلاشِ رزق کے سلسلہ میں نیکی اور پرہیزگاری کا رویہ اختیار کرو، اور روزی میں کچھ تاخیر ہو جانا تمہیں اس پر آمادہ نہ کر دے کہ تم اللہ کی نافرمانیوں اور نامشروع طریقوں سے اس کے حاصل کرنے کی فکر و کوشش کرنے لگو، کیوں کہ جو کچھ اللہ کے قبضہ میں ہے وہ اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گذاری ہی کے ذریعہ اس سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ (شرح السنۃ، شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
حدیث کا ابتدائی حصہ صرف تمہید ہے، رسول اللہ ﷺ اس موقع پر دراصل وہی خاص بات اپنے مخاطبین کو بتلانا اور پہنچانا چاہتے تھے جو جبرئیل امینؑ نے اُس وقت آپ کے دل میں ڈالی تھی، لیکن مخاطبین کے ذہنوں کو پوری طرح متوجہ کرنے کے لیے آپ نے پہلے ارشاد فرمایا کہ لوگو! حلال و حرام اور گناہ و ثواب کی پوری تعلیم میں تم کو دے چکا ہوں، اب ایک اہم تکمیلی بات جو ابھی جبرئیل امین نے مجھے پہنچائی ہے، میں تم کو بتانا چاہتا ہوں۔ اس تمہید کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے اپنے مخاطبین کے ذہنوں کو بیدار اور متوجہ کیا اور اس کے بعد وہ خاص بات ارشاد فرمائی، جس کا حاصل یہ ہی ہے کہ ہر شخص کا رزق مکتوب اور مقدر ہو چکا ہے، وہ مرنے سے پہلے پہلے اس کو مل کر رہے گا، اور جب معاملہ یہ ہی ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ اگر روزی میں کچھ تنگی اور تاخیر بھی ہو جب بھی وہ اس کے حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو، اور بس میں اس کی نافرمانی ہوتی ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر یقین رکھتے ہوئے صرف حلال اور مشروع طریقوں ہی سے اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرے کیوں کہ اللہ کا فضل و انعام اس کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری ہی کے راستہ سے حاصل کی جا سکتا ہے۔ اس کو ایک جزئی مثال کے انداز میں آسانی سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ فرض کیجئے اللہ کا کوئی بندہ تنگدستی میں مبتلا ہے اور اس کو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے، اس موقع پر وہ ایک شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ سو رہا ہے، شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس سونے والے شخص کی کوئی چیز اٹھا لے اور ابھی ہاتھ کے ہاتھ بیچ کی روزی حاصل کر لے، ایسے وقت کے لئے رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم ہے کہ یقین رکھو جو روزی تم کو پہنچنے والی ہے وہ پہنچ کر رہے گی، پھر کیوں چوری کر کے اپنے اللہ کو ناراض، اپنے ضمیر اور اپنی روح کو ناپاک، اور اپنی عاقبت کو خراب کرتے ہو، بجائے چوری کرنے کے کسی حلال اور جائز ذریعہ سے روزی حاصل کرنے کی کوشش کرو، حلال کا میدا ہرگز تنگ نہیں ہے۔
Top