معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 382
عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ : أَرْسَلَتْ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ إِنَّ ابْنًا لِي قُبِضَ ، فَأْتِنَا ، فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلاَمَ ، وَيَقُولُ : « إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ ، وَلَهُ مَا أَعْطَى ، وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى ، فَلْتَصْبِرْ ، وَلْتَحْتَسِبْ » ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا ، فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ ، وَمَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ ، فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ ، فَقَالَ سَعْدٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا هَذَا؟ فَقَالَ : « هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ ، فَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ » (رواه البخارى ومسلم)
ایک نواسہ کی وفات پر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنی صاحبزادی کو صبر کی تلقین
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی (حضرت زینب ؓ) نے آنحضرت ﷺ کے پاس کہلا کے بھیجا کہ میرے بچے کا آخری دم ہے، اور چل چلاؤ کا وقت ہے، لہذا آپ اس وقت تشریف لے آئیں، آپ نے اس کے جواب میں سلام کہلا کے بھیجا اور پیام دیا کہ بیٹی! اللہ تعالیٰ کسی سے جو کچھ لے وہ بھی اسی کا ہے، اور کسی کو جو کچھ دے وہ بھی اسی کا ہے، الغرض ہر چیز ہر حال میں اُسی کی ہے (اگر کسی کو دیتا ہے تو اپنی چیز دیتا ہے اور کسی سے لیتا ہے تو اپنی چیز لیتا ہے) اور ہر چیز کے لیے اس کی طرف سے ایک مدت اور وقت مقرر ہے (اور اس وقت کے آ جانے پر وہ چیز اس دنیا سے اٹھا لی جاتی ہے) پس چاہئے کہ تم صبر کرو، اور اللہ تعالیٰ سے اس صدمہ کے اجر و ثواب کی طالب بنو۔ صاحبزادی صاحبہ نے پھر آپ کے پاس پیام بھیجا اور قسم دی کہ اس وقت حضور ضرور ہی تشریف لے آئیں، پس آپ اُٹھ کر چل دئیے، اور آپ کے اصحاب میں سے سعد بن عبادہؓ اور معاذ بن جبلؓ اور ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ اور بعض اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ہو لئے، پس وہ بچہ اُٹھا کر آپ کی گود میں دیا گیا، اور اس کا سانس اُکھڑ رہا تھا، اس کے حال کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اس پر سعد بن عبادہ نے عرض کیا، حضرت یہ کیا؟ آپ نے فرمایا کہ یہ رحمت کے اس جذبہ کا اثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ دیا ہے، اور اللہ کی رحمت ان ہی بندوں پر ہوگی جن کے دلوں میں رحمت کا یہ جذبہ ہو (اور جن کے دل سخت اور رحمت کے جذبہ سے بالکل خالی ہوں، وہ خدا کی رحمت کے مستحق نہ ہوں گے)۔

تشریح
حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ کسی صدمہ سے دل کا متاثر ہونا اور آنکھوں سے آنسو بہنا صبر کے منافی نہیں، صبر کا مقتضی صرف اتنا ہے کہ بندہ مصیبت اور صدمہ کو اللہ تعالیٰ کی مشیت یقین کرتے ہوئے اس کو بندگی کی شان کے ساتھ انگیز کرے،، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور اس کاشاکی نہ ہو اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود کا پابند رہے۔ باقی طبعی طور پر دل کا متاثر ہونا اور آنکھوں سے آنسو بہنا تو قلب کی رقت اور اس جذبہ رحمت کا لازمی نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی فطرت میں ودیعت رکھا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے اور جو دل اس سے خالی ہو وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت سے محروم ہے۔ سعد بن عبادہؓ نے حضور ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھ کر تعجب سے سوال اس لئے کیا کہ اس وقت تک ان کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ دل کا یہ تاثر اور آنکھوں سے آنسو گرنا صبر کے منافی نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
Top