معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 380
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : « يَاابْنَ آدَمَ إِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى ، لَمْ أَرْضَ لَكَ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ » (رواه ابن ماجه)
شروع صدمہ میں صبر کرنے والے کو رحمت کی بشارت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے فرزندِ آدم! اگر تو نے شروع صدمہ میں صبر کیا اور میری رضا اور ثواب کی نیت کی، تو میں نہیں راضی ہوں گا کہ جنت سے کم اور اس کے سوا کوئی ثواب تجھے دیا جائے۔ (ابن ماجہ)

تشریح
جب کوئی صدمہ کسی آدمی کو پہنچتا ہے تو اس کا زیادہ اثر ابتدا ہی میں ہوتا ہے، ورنہ کچھ دن گذرنے کے بعد تو وہ اثر خود بخود بھی زائل ہو جاتا ہے، اس لیے صبر دراصل وہی ہے جو صدمہ پہنچنے کے وقت اللہ تعالیٰ کا خیال کر کے اور اس کی رضا اور ثواب کی امید پر کیا جائے، اس کی فضیلت ہے اور اسی پر ثواب کا وعدہ ہے، بعد میں طبعی طور پر جو صبر آ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ابو امامہ ؓ کی اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان فرمایا ہے کہ جو صاحبِ ایمان بندہ کسی صدمہ کے پہنچنے کے وقت اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کی نیت سے صبر کرے گا تو اللہ اس کو جنت ضرور عطا فرمائے گاس اور جنت کے سوا اور اس سے کم درجہ کی کوئی چیز اس کے صبر کے ثواب میں دینے پر خود خدائے تعالیٰ راضی نہ ہو گا۔ اللہ اکبر! کس قدر کریمانہ انداز ہے، براہِ راست بندہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اے ابنِ آدم جب تجھے میرے تقدیری حکم سے کوئی صدمہ پہنچے اور تو اس وقت میری رضا اور ثواب کی امید پر اس صدمہ کا استقبال صبر سے کرے تو تجھے جنت دئیے بغیر میں راضی نہ ہوں گا۔ گویا اس صبر کی وجہ سے بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو ایسا خاص تعلق ہو جائے گا کہ اس بندہ کو جنت دئیے بغیر اللہ تعالیٰ راضی اور خوش نہ ہوں گے۔ ف۔۔۔ جب کسی بندہ خدا کو کسی قسم کا کوئی صدمہ پہنچے تو اگر اس وقت اس حدیث کو اور اللہ تعالیٰ کے اس کریمانہ وعدہ کو یاد کر کے صبر کر لے، تو ان شاء اللہ اس صبر میں ایک خاص لذت اور حلاوت ملے گی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یقیناً جنت بھی عطا ہوگی۔
Top