معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 374
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ لِىْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَا أَبَا ذَرٍّ , تَقُوْلُ كَثْرَةَ الْمَالِ الْغِنَى؟ " قُلْتُ : نَعَمْ قَالَ : " تَقُوْلُ قِلَّةَ الْمَالِ هِيَ الْفَقْرُ؟ " , قُلْتُ : نَعَمْ قَالَ ذَالِكَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ : " الْغِنَى فِى الْقَلْبِ , وَالْفَقْرُ فِى الْقَلْبِ " (رواه الطبرانى فى الكبير)
قناعت و استغناء اور حرص و طمع
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن مجھ سے ارشاد فرمایا: ابوذر! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مال زیادہ ہونے کا نام تونگری ہے؟ میں نے عرض کیا، ہاں حضور! (ایسا ہی سمجھاجاتا ہے) پھر آپ نے فرمایا: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ مال کم ہونے کا نام فقیری اور محتاجی ہے؟ میں نے عرض کیا، ہاں حضور! (ایسا ہی خیال کیا جاتا ہے) یہ بات آپ نے مجھ سے تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا، اصلی دولتمندی دل کے اندر ہوتی ہے، اور اصلی محتاجی اور فقیری بھی دل ہی میں ہوتی ہے۔ (معجم کبیر للطبرانی)

تشریح
حقیقت یہی ہے کہ تونگری اور محتاجی، خوشحالی اور بدحالی کا تعلق روپیہ، پیسہ سے زیادہ آدمی کے دل سے ہے، اگر دل غنی اوربے نیاز ہے، تو آدمی نچنت اور خوشحال ہے اور اگر دل حرص و طمع کا گرفتار ہے، تو دولت کے ڈھیروں کے باوجود وہ خوشحالی سے محروم اور محتاج و پریشان حال ہے، سعدی علیہ الرحمہ کا مشہور قول ہے: تونگری بدل ست نہ بہ مال
Top