معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 372
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ ، وَرُزِقَ كَفَافًا ، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ » (رواه مسلم)
قناعت و استغناء اور حرص و طمع
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کامیاب اور بامراد ہو وہ بندہ جس کو حقیقتِ اسلام نصیب ہوئی، اور اس کو روزی بھی بقدر کفاف ملی، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس قدر قلیل روزی پر قانع بھی بنا دیا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جن اخلاق کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اس دنیا میں بھی بہت بلند ہو جاتا ہے اور دل کی بے چینی اور کڑھن کے سخت عذاب سے بھی اس کو نجات مل جاتی ہے، ان میں سے ایک قناعت اور استغناء بھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کو جو کچھ ملے اس پر وہ راضی اور مطمئن ہو جائے اور زیادہ کی حرص و لالچ نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے کو قناعت کی یہ دولت عطا فرمائے، بلا شبہ اس کو بڑی دولت عطا ہوئی، اور بڑی نعمت سے نوازا گیا۔ اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے: تشریح۔۔۔ بلا شبہ جس بندہ کو ایمان کی دولت نصیب ہو، اور ساتھ ہی اس دنیا میں گذارے کا کچھ ضروری سامان بھی، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل کو قناعت اور طمانیت کی دولت بھی نصیب فرما دے، تو اس کی زندگی بڑی مبارک اور بڑی خوشگوار ہے اور اس پر اللہ کا بڑا ہی فضل ہے۔ یہ قناعت اور دل کی طمانیت وہ کیمیا ہے جس سے فقیر کی زندگی بادشاہ کی زندگی سے زیادہ لذیذ اور پُر مسرت بن جاتی ہے۔ ایں کیمیائے ہستی قاروں کند گدارا آدمی کے پاس اگر دولت کے ڈھیر ہوں، لیکن اس میں اور زیادہ کے لئے طمع اور حرص ہو، اور وہ اس میں اجافہ ہی کی فکر اور کوشش میں لگا رہے، اور " هل من مزيد " ہی کے پھیر میں پڑا رہے تو اسے کبھی قلبی سکون نصیب نہ ہو گا، اور وہ دل کا فقیر ہی رہے گا برخلاف اس کے اگر آدمی کے پاس صرف جینے کا مختصر سامان ہو، مگر وہ اس پر مطمئن اور قانع ہو تو فقر و افلاس کے باوجود وہ دل کا غنی رہے گا، اور اس کی زندگی بڑے اطمینان اور آسودگی کی زندگی ہوگی۔ اس حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں ان الفاظ میں ارشاد فرمایاہے۔
Top