معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 363
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ . (رواه البخارى ومسلم)
تواضع و خاکساری اور غرورو تکبر
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا۔ (مسلم و بخاری)

تشریح
کبریائی اور بڑائی دراصل صرف اس ذات پاک کا حق ہے جس کے ہاتھ میں سب کی موت و حیات اور عزت و ذلت ہے، جس کے لئے کبھی فنا نہیں، اور اس کے علاوہ سب کے لئے فنا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔ وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اور اسی کے لئے کبریائی اور بڑائی ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور وہی ہے زبردست اور حکمت والا۔ پس اب جو بر خود غلط انسان کبریائی اور بڑائی کا دعویدار ہو، اور اللہ کے بندوں کے ساتھ غرور تکبر اس کا رویہ ہو، وہ گویا اپنی حقیقت بھول کر اللہ تعالیٰ کا حریف بنتا ہے، اس لئے وہ بہت ہی بڑا مجرم ہے، اور اس کا جرم نہایت ہی سنگین ہے، اور اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اعلان فرمایا ہے، کہ اپنی اس فرعونی صفت کی وجہ سے وہ جنت میں نہ جا سکے گا۔ یہ اصولی بات پوری تفصیل سے پہلے واضح کی جا چکی ہے کہ جن حدیثوں میں کسی بدعملی یا بداخلاقی کا انجام یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کا مرتکب جنت میں نہ جا سکے گا، ان کا مطلب عموماً یہ ہوتا ہے کہ یہ بدعملی یا بداخلاقی اپنی اصل تاثیر کے لحاظ سے جنت سے محروم کر دینے والی اور دوزخ میں پہنچانے والی ہے۔ یا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کے مرتکب سچے ایمان والوں کے ساتھ اور ان کی طرح سیدھے جنت میں نہ جا سکیں گے، بلکہ اُن کو جہنم کا عذاب بھگتنا پڑے گا، اس لیے اس حدیث کا مطلب بھی اس اصول کی روشنی میں یہی سمجھنا چاہئے کہ غرور و تکبر اپنی اصلیت کے لحاظ سے جنت سے دور کر کے دوزخ میں ڈلوانے والی خصلت ہے، یا یہ کہ مغرور اور متکبر شخص سیدھا جنت میں نہ جا سکے گا، بلکہ اس کو دوزخ میں اپنے غرور و تکبر کی سزا بھگتنی پڑے گی، اور جب وہاں آگ میں تپا کے اُس کے تکبر کے مادہ کو جلا دیا جائے گا اور غرور کی گندگی سے اس کو پاک و صاف کر دیا جائے گا تو اگر وہ صاحب ایمان ہے تو اس کے بعد جنت میں جا سکے گا۔
Top