معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 362
عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الخُزَاعِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الجَنَّةِ؟ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَاعِفٍ ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ . أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ؟ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ . (رواه البخارى ومسلم)
تواضع و خاکساری اور غرورو تکبر
حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تم کو بتاؤں کہ جنتی کون ہے؟ ہر وہ شخص جو (معاملہ اور برتاؤ میں اکھڑ اور سخت نہ ہو، بلکہ) عاجزوں کمزوروں کا سا اس کا رویہ ہو، اور اس لئے لوگ اس کو کمزور سمجھتے ہوں (اور اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ایسا ہو کہ) اگر وہ اللہ پر قسم کھا لے، تو اللہ اس کی قسم پوری کر دکھائے۔ اور کیا میں تم کو بتاؤں کہ دوزخی کون ہے؟ ہر اکھڑ، بدخو اور مغرور شخص۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
اس حدیث میں اہل جنت کی صفت " ضعیف، متضعف " بتلائی گئی ہے، اس سے مراد وہ ضعف و کمزوری نہیں ہے جو قوت و طاقت کے مقابلہ میں بولی جاتی ہے، کیوں کہ وہ ضعف و کمزوری کوئی قابل تعریف صفت نہیں ہے، بلکہ ایک حدیث میں تو صراحۃً فرمایا گیا ہے کہ۔ " الْمُؤْمِنُ الْقَوِىُّ خَيْرٌ وَاَحَبُّ اِلَى تَعَالَى مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيْفِ " (طاقتور مسلمان خدا کے نزدیک کمزور مسلمان سے زیادہ بہتر اور محبوب ہے)۔ بلکہ جیسا کہ ترجمہ میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہاں ضعیف و متضعف سے مراد وہ شریف الطبع متواضع اور نرم خو شخص ہے جو معاملہ اور برتاؤ میں عاجزوں اور کمزوروں کی طرح دوسروں سے دب جائے، اور اس لئے لوگ اسے کمزور سمجھیں اور دبا لیا کریں۔ اسی لئے اس حدیث میں ضعیف و متضعف کے مقابلہ میں عتل، جواظ، متکبر کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تواضع و نرمی اور عاجزی اہل جنت کی صفت ہے، اور غرور استکبار اور اکھڑ پن دوزخیوں کے اوصاف ہیں۔ اس حدیث میں جنتیوں کی صفت میں " ضعیف و متضعف " کے ساتھ ایک بات یہ بھی فرمائی گئی ہے کہ اگر وہ بندہ اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم پوری کر دے۔ بظاہر اس سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس طرف اشارہ فرمانا ہے کہ جب کوئی بندہ! اللہ کے لئے اپنی خودی کو مٹا کر اُس کے بندوں کے ساتھ عاجزی اور فروتنی کا رویہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم کی لاج رکھے گا، اور اس کی بات کو پورا کر دکھائے گا، یا یہ کہ اگر وہ بندہ کسی خاص معاملہ میں اللہ کو قسم دے کر اُس سے کوئی خاص دعا کرے گا، تو اللہ اُس کی دعا ضرور قبول کرے گا۔
Top