معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 343
عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ ، قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا ، فَقَالَ : « عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالْإِشْرَاكِ بِاللَّهِ » ثَلَاثَ مِرَارٍ ، ثُمَّ قَرَأَ {فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ} (رواه ابو داؤد وابن ماجه)
جھوٹی گواہی
خریم بن فاتک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن صبح کی نماز پڑھی، جب آپ اس سے فارغ ہوئے تو ایک دم کھڑے ہو گئے، اور فرمایا کہ: جھوٹی گواہی اشراک باللہ کے برابر کر دی گئی، یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی، اور قرآن مجید (سورہ حج) کی یہ آیت تلاوت فرمائی: " فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ " (بتوں کی، یعنی بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو، صرف ایک اللہکے ہو کر کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کرتے ہوئے)۔ (سنن ابی داؤد، ابن ماجہ)

تشریح
ابھی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہر جھوٹ گناہ ہے لیکن اس کی بعض قسمیں اور صورتیں بہت ہی بڑا گناہ ہیں، ان ہی میں سے ایک یہ ہے کہ کسی قضیہ اور معاملہ میں جھوٹی گواہی دی جائے، اور اس جھوٹی گواہی کے ذریعے کسی اللہ کے بندے کو نقصان پہنچایا جائے۔ سورہ حج کی مذکورہ بالا آیت میں جھوٹ کی اسی قسم کو شرک اور بت پرستی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اور دونوں سے بچنے کی تاکید کے لیے ایک ہی لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے اس طرز بیان کا حوالہ دے کر رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہ ارشاد فرمایا کہ جھوٹی گواہی اپنی گندگی میں اور اللہ کی ناراضی اور لعنت کا باعث ہونے میں شرک باللہ کے ساتھ جوڑ دی گئی ہے، اور یہ بات آپ نے تین بار ارشاد فرمائی۔ اور جامع ترمذی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دن صحابہؓ سے ارشاد فرمایا، اور تین دفعہ ارشاد فرمایا: " کیا میں تم لوگوں کو بتاؤں کہ سب سے بڑے گناہ کون کون سے ہیں؟ " پھر آپ نے فرمایا " اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور معاملات میں جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹ بولنا " راوی کا بیان ہے کہ پہلے آپ سہارا لگائے بیٹھے تھے لیکن پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، اور بار بار آپ نے اس ارشاد کو دہرایا، یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ کاش اب آپ خاموش ہو جاتے یعنی اس وقت آپ پر ایک ایسی کیفیت طاری تھی اور آپ ایسے جوش سے فرما رہے تھے کہ ہم محسوس کر رہے تھے کہ آپ کے قلب مبارک پر اس وقت بڑا بوجھ ہے، اس لئے جی چاہتا تھا کہ اس وقت آپ خاموش ہو جائیں، اور اپنے دل پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں۔
Top