معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 337
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " اضْمَنُوا لِي سِتًّا مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنْ لَكُمُ الْجَنَّةَ : اصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ ، وَأَوْفُوا إِذَا وَعَدْتُمْ ، وَأَدُّوا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ ، وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ ، وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ ، وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ " (رواه احمد والبيهقى فى شعب الايمان)
صدق و امانت اور کذب و خیانت
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم چھ باتوں کے ضامن ہو جاؤ اور ان کی ذمہ داری لے لو تو میں تمہارے لئے جنت کی ذمہ داری لیتا ہوں (وہ چھ باتیں یہ ہیں) جب بات کرو تو ہمیشہ سچ بولو، جب کسی سے وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو، جب کوئی امانت سپرد کی جائے تو اس کو ٹھیک ٹھیک ادا کرو، اور حرام کاری سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، اور جن چیزوں کی طرف نظر کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ان کی طرف سے آنکھیں بن کرو، یعنی کوشش کرو کہ ان پر نظر نہ پڑے، اور جن موقعوں پر ہاتھ روکنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں ہاتھ روک لو (یعنی ناحق کسی کو نہ مارو نہ ستاؤ، نہ کسی کی کوئی چیز چھیننے کے لئے ہاتھ بڑھاؤ وغیرہ وغیرہ)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان لے آیا ہے اور فرائض و ارکان ادا کرتا ہے اور مذکورہ بالا چھ بنیادی اخلاق (صدق و امانت وغیرہ) کا بھی اپنے کو پابند بنا لیتا ہے تو پھر یقیناً وہ جنتی ہے، اور اس کے لئے اللہ اور رسول کی طرف سے جنت کی ضمانت اور بشارت ہے۔
Top