معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 323
عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَا أَبَا ذَرٍّ ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى خَصْلَتَيْنِ هُمَا أَخَفُّ عَلَى الظَّهْرِ ، وَأَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ؟ " قُلْتُ : بَلَى ، قَالَ : " طُولُ الصَّمْتِ ، وَحُسْنُ الْخُلُقِ ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا عَمِلَ الْخَلَائِقُ بِمِثْلِهِمَا " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوذر غفاری ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: کہ میں تمہیں ایسی دو خصلتیں بتا دوں جو پیٹھ پر بہت ہلکی ہیں (ان کے اختیار کرنے میں آدمی پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں پڑتا) اور للہ کی میزان میں وہ بہت بھاری ہوں گی؟ ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، کہ یا رسول اللہ! وہ دونوں خصلتیں ضرور بتلا دیجیے! آپ نے فرمایا، زیادہ خاموش رہنے کی عادت، اور حسن اخلاق، قسم اُس پاک ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، مخلوقات کے اعمال میں یہ دونوں چیزیں بے مثل ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، زیادہ خاموش رہنے کا مطلب یہی ہے کہ بے ضرورت نامناسب اور ناپسندیدہ باتوں سے آدمی اپنی زبان روکے رہے، جس شخص کا یہ طرز عمل ہو گا، قدرتی طور پر وہ کم بولنے والا اور زیادہ خاموش رہنے والا ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس دنیا میں سب سے زیادہ بولنے کی ضرورت تھی، کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے آپ کو ہدایات دینی تھیں، اور آپ اس ضرورت سے بولنے میں کوئی کمی نہ کرتے تھے، بتانے کی ہر چھوٹی بڑٰ بات بتلاتے تھے، لیکن اس کے باوجود آپ کے دیکھنے والے صحابہ کرامؓ نے آپ کا حال یہ بیان فرمایا کہ " كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَوِيلَ الصَّمْتِ (1) " (رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ خاموش رہتے تھے)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ " وَلَا يَتَكَلَّمُ اِلَّا فِيْمَا يَرْجُوْ ثَوَابَهُ (2) " (آپ صرف وہی بات کرتے تھے جس پر آپ کو ثواب کی امید ہوتی تھی)۔
Top