معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 317
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قُلْتُ يَارَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ ، وَيُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ ، قَالَ : « لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ اَمْرٍ عَظِيمٍ ، وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ ، تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا ، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ » ثُمَّ قَالَ : " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ؟ الصَّوْمُ جُنَّةٌ ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ ، وَصَلَاةُ الرَّجُلِ فِىْ جَوْفِ اللَّيْلِ ، ثُمَّ تَلَا {تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ} حَتَّى بَلَغَ {يَعْمَلُونَ} " ثُمَّ قَالَ : « أَلَا أَدُلُّكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ ، وَعَمُودِهِ ، وَذُرْوَةِ سَنَامِهِ؟ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : رَأْسُ الأَمْرِ الإِسْلاَمُ ، وَعَمُودُهُ الصَّلاَةُ ، وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ » ثُمَّ قَالَ : « أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟ » قُلْتُ : بَلَى يَا نَبِيَّ اللهِ ، فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ ، فَقَالَ : « كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا » فَقُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ قَالَ : « ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلاَّ حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ؟ » (رواه احمد والترمذى وابن ماجه)
کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا
حضرت معاذ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ حضرت! مجھے ایسا عمل بتا دیجئے کہ جس کی وجہ سے میں جنت میں پہنچ جاؤں، اور دوزخ سے دور کر دیا جاؤں، آپ نے فرمایا، تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے، لیکن (بڑی اور بھاری ہونے کے باوجود) وہ اس بندے کے لئے آسان ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ اس کو آسان کر دے (اور توفیق دے دے)۔ لو سنو! (سب سے مقدم بات تو یہ ہے کہ دین کے ان بنیادی مطالبوں کو فکر اور اہتمام سے ادا کرو) اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور اچھے طریقے (اور دل کی توجہ کے ساتھ) نماز ادا کیا کرو، اور زکوٰۃ دیا کرو اور رمضانکے روزے رکھا کرو، اور بیت اللہ کا حج کرو۔ پھر فرمایا کیا میں تمہیں خیر کے دروازے بھی بتا دوں؟ (گویا جو کچھ اب تک آپ نے بتلایا یہ تو اسلام کے ارکان اور فرائض تھے، اس کے بعد آپ نے فرمایا، کہ تم چاہو تو میں تمہیں خیر کے اور دروازے بتلاؤں! غالباً اس سے آپ کی مراد نفل عبادات تھیں، چنانچہ حضرت معاذؓ کی طلب دیکھ کرآپ نے اُن سے فرمایا) روزہ (گناہوں سے اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی) سپر اور ڈھال ہے، اور صدقہ گناہ کو (اور گناہ سے پیدا ہونے والی آگ کو) اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، اور رات کے درمیانی حصے کی نماز (یعنی نمازِ تہجد کا بھی یہی حال ہے، اور ابوابِ خیر میں اس کا خاص الخاص مقام ہے) اس کے بعد آپ نے (تہجد اور صدقہ کی فضیلت کے سلسلہ میں) سورہ سجدہ کی یہ آیت پڑھی: (1) تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ پھر آپ نے فرمایا، کیا میں تمہیں معاملہ کا (یعنی دین کا) سر اور اس کا عُمود یعنی ستون اور اس کی بلند چوٹی بتا دوں؟ (معاذؓکہتے ہیں) میں نے عرض کیا، حضرت ضرور بتا دیں! آپ نے فرمایا، دین کا سر، یا سرا اسلام ہے، اور اس کا ستون نماز ہے، اور اس کی بلند چوٹی جہاد ہے۔ پھر آپ نے فرمایا، کیا میں تمہیں وہ چیز بھی بتا دوں جس پر گویا ان سب کا مدار ہے (اور جس کے بغیر یہ سب چیزیں ہیچ اور بے وزن ہیں، معاذ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا حضرت وہ چیز بھی ضرور بتلا دیجئے! پس آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا، اس کو روکو (یعنی اپنی زبان قابو میں رکھو، یہ چلنے میں بیباک اور بے احتیاط نہ ہو، معاذ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا، حضرت! ہم جو باتیں کرتے ہیں، کیا ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہو گا؟ آپ نے عرض فرمایا، اے معاذ! تجھے تیری ماں روئے (عربی محاورہ کے مطابق یہاں یہ پیار کا کلمہ ہے) آدمیوں کو دوزخ میں ان کے منہ کے بل، یا فرمایا کہ ان کی ناکوں کے بل (زیادہ تر) ان کی زبانوں کی بیباکانہ باتیں ہی ڈلوائیں گی۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
دنیا میں جھگڑے اور فسادات زیادہ تر زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں ہی سے پیدا ہوتے ہیں، اور جو بڑے بڑے گناہ آدمیوں سے بکثرت سرزد ہوتے ہیں ان کا تعلق بھی بیشتر زبان ہی سے ہوتا ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ اس کی بڑی تاکید فرماتے تھے، کہ زبان کو قابو میں رکھا جائے، اور ہر قسم کی بری باتوں سے بلکہ بے ضرورت اور بے فائدہ باتیں کرنے سے بھی زبان کو روکا جائے، اور جب بات کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو اور بات سے کسی خیر اور نفع کی امید نہ ہو، تو خاموش ہی رہا جائے، یہ تعلیم رسول اللہ ﷺ کی ان اہم تعلیمات میں سے ہے جن پر آپ نے نجات کا دارو مدار بتلایا ہے، اور بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز، روزہ، حج اور جہاد جیسی عبادات کی نورانیت اور ان کا حسن و قبول بھی زبان کی اسی احتیاط پر موقوف ہے۔ اس بارہ میں رسول اللہ ﷺ کے بعض ارشادات " کتاب الرقاق " میں گذر چکے ہیں، چند حدیثیں یہاں اور درج کی جاتی ہیں: تشریح۔۔۔ اس حدیث میں ارکانِ اسلام کے بعد آپ نے ابوابِ خیر کے عنوان سے روزہ اور صدقہ کا جو ذکر فرمایا ہے، اس عاجز کے نزدیک اس سے مراد نفلی روزہ اور نفلی صدقہ ہے، اور اسی لئے آپ نے اس کے ساتھ نمازِ تہجد کا ذکر فرمایا ہے جو نفل نمازوں میں سب سے افضل ہے۔ پھر آپ نے اسلام کو " راس الامر " یعنی دین کا سر بتلایا ہے، بظاہر یہاں اسلام سے مراد اسلام قبول کرنا اور اس کو اپنا دین بنانا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سارے اچھے عمل کرے، اور اس کے اخلاق و معاملات بھی اچھے ہوں لیکن وہ اسلام کو اپنا دین نہ بنائے تو اس کی مثال ایک ایسے جسم کی سی ہے جس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ سب درست ہوں لیکن سر کٹ گیا ہو، پھر نماز کو آپ نے دین کا ستون بتلایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی مکان بغیر ستون کے قائم نہیں رہ سکتا، اسی طرح بغیر نماز کے دین کا قیام نہیں، پھر آپ نے جہاد کو دین کی بلند ترین چوٹی فرمایا، ظاہر ہے کہ دین کی بلندی اور رفعت جہاد ہی پر موقوف ہے۔ حدیث کا سب سے آخری جز جس کی وجہ سے یہاں ایک حدیث کو درج کیا گیا ہے، یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ان سب چیزوں کا دار و مدار اس پر ہے کہ آدمی اپنی زبان کی حفاظت کرے، یعنی زبان کی بیباکیاں ان سب اعمالِ حسنہ کو بے وزن اور بے نور کر دیتی ہیں۔ پھر جب حضرت معاذ کو یہ سن کر تعجب ہوا، اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا باتوں پر بھی ہماری پکڑ ہوگی؟ تو آپ نے فرمایا آدمی جہنم میں اوندھے منہ زیادہ تر زبان ہی کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں کی وجہ سے ڈالے جائیں گے۔ آج بھی ہر دیکھنے والا بچشم خود دیکھ سکتا ہے کہ جو بڑے بڑے گناہ و باکی طرح عام ہیں اور جن سے بچنے والے بہت ہی کم ہیں، ان کا تعلق زیادہ تر زبان و دہن ہی سے ہے ؎ ہر چہ بر آدمی برسد ز زیاں ہمہ از آفت زبان برسد
Top