معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 315
عَنِ عَائِشَةَ قَالَتْ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : « بِئْسَ ابْنُ العَشِيرَةِ - أَوْ بِئْسَ رَجُلُ العَشِيرَةِ » قَالَ : ائْذَنُوا لَهُ ، فَلَمَّا دَخَلَ أَلاَنَ لَهُ القَوْلَ ، فَقَالَتْ عَائِشَةَ يَا رَسُوْلَ اللهِ أَلَنْتَ لَهُ القَوْلَ؟ وَقَدْ قُلْتَ لَهُ مَا قُلْتَ قَالَ « إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ وَدَعَهُ أَوْ تَرَكَهُ النَّاسُ لِاِتِّقَاءَ فُحْشِهِ » (رواه البخارى ومسلم وابو داؤد واللفظ له)
خوش کلامی اور بد زبانی
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اجازت چاہی، آپ نے (ہم لوگوں سے) فرمایا کہ یہ اپنے قبیلہ کا بُرا فرزند ہے، یا فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلہ کا بُرا آدمی ہے، پھر آپ نے فرمایا کہ اس کو آنے کی اجازت دے دو، پھر جب وہ آ گیا تو آپ نے اُس کے ساتھ گفتگو بہت نرمی سے فرمائی (جب وہ چلا گیا) تو حضرت عائشہؓ نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ) آپ نے تو اس شخص سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی، اور پہلے آپ نے اسی کے بارے میں وہ بات فرمائی تھی (کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے) آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک درجہ کے لحاظ سے بدترین آدمی قیامت کے دن وہ ہو گا، جس کی بدزبانی اور سخت کلامی کے ڈر سے لوگ اس کو چھوڑ دیں (یعنی اس سے ملنے اور بات کرنے سے گریز کریں) (صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی شریر اور بُرا بھی ہو، جب بھی اُس سے بات نرمی سے اور شریفانہ طریقہ ہی سے کرنی چاہئے، ورنہ بدزبانی اور سخت کلامی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایسے شخص سے ملنے اور بات کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں، اور جس شخص کا یہ حال ہو، وہ اللہ کے نزدیک بہت برا آدمی ہے اور قیامت کے دن اُس کا حال بہت برا ہو گا۔ اس حدیث کے بارے میں چند باتیں سمجھ لینی چاہئیں: ۱۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے آنے سے پہلے اُس کے بُرے آدمی ہونے کی اطلاع اپنے پاس والوں کو غالباً اس لیے دی تھی کہ وہ اس کے سامنے محتاط ہو کر بات کریں، اور کوئی ایسی بات نہ کر بیٹھیں جو کسی شریر اور برے آدمی کے سامنے نہ کرنی چاہئے، اور ایسی کسی مصلحت سے کسی شخص کی برائی سے دوسروں کو خبردار کرنا غیبت میں داخل نہیں ہے، بلکہ اس کا حکم ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " اذكروا الفاجر بما فيه لكى يحذره الناس " (فاجر و بدکار آدمی میں جو برائی ہے اُس کا لوگوں سے ذکر کر دو، تا کہ اللہ کے بندے اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں)۔ (کنز العمال) ۲۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس آدمی کا شریر اور بُرا ہونا معلوم ہو اُس سے بھی گفتگو نرمی ہی سے کرنی چاہئے، بلکہ اسی واقعہ کی صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: " فَلَمَّا جَلَسَ تَطَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ وَانْبَسَطَ إِلَيْهِ " جس کا مطلب یہ ہوا کہ آُ نے اُس آدمی سے شگفتگی اور خندہ روئی کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ جن لوگوں کی برائی اور بدکرداری ہم جانتے ہوں اُن سے اچھی طرح ملنا بھی نہ چاہئے صحیح نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے مشہور صحابی حضرت ابو الدرداء ؓ سے خود امام بخاری نے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے۔ " إِنَّا لَنَكْشِرُ فِي وُجُوهِ أَقْوَامٍ، وَإِنَّ قُلُوبَنَا لَتَلْعَنُهُمْ " یعنی ہم بہت سے ایسے لوگوں سے بھی ہنس کرملتے اور بولتے ہیں، جن کے احوال اور اعمال کے لحاظ سے ہمارے دل ان پر لعنت کرتے ہیں۔ ۳۔ اس حدیث کی ابو داؤد کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے جب رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، کہ جس آدمی کے بارے میں آپ نے خود فرمایا تھا کہ یہ بہت برا آدمی ہے، اُس سے آپ نے ایسی بشاشت اور شگفتگی کے ساتھ کیوں ملاقات اور بات چیت فرمائی؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا " يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ " یعنی اے عائشہؓ! اللہ تعالیٰ بدزبان اور فحش گو آدمی کو دوست نہیں رکھتا۔ مطلب یہ ہے کہ بدزبانی کی عادت اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم کر دیتی ہے، لہذا میں کیسے اس کا مرتکب ہو سکتا ہوں۔
Top