معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 303
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ ، وَلَكِنَّ الشَّدِيدَ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ » (رواه البخارى ومسلم)
غصہ میں نفس پر قابو رکھنے والا حقیقی پہلوان ہے
حضرت زبیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پہلوان اور طاقت ور وہ نہیں ہے جو مدمقابل کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان اور شہ زور در حقیقت وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ آدمی کا سب سے بڑا اور بہت ہی مشکل سے زیر ہرنے والا دشمن اس کا نفس ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ: " اَعْدىٰ عَدُوِّكَ نَفْسُكَ الَّتِىْ بَيْنَ جَنْبَيْكَ " (تیرا سخت ترین دشمن خود تیرا نفس ہے) اور معلوم ہے کہ خاص کر غصہ کے وقت اس کا قابو میں رکھنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے، اس لیے فرمایا گیا ہے کہ طاقت ور اور پہلوان کہلانے کا اصلی حقدار وہی مردِ خدا ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے، اور نفسانیت اس سے کوئی بیجا حرکت اور کوئی غلط کام نہ کرا سکے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ بندہ کے دل میں وہ کیفیت ہی پیدا نہ ہو جس کو غیظ، غضب اور غصہ کے لفظوں سے تعبیر کیا جاتا ہے (کیوں کہ کسی سخت ناگوار بات پر دل میں اس کیفیت کا پیدا ہو جانا تو بالکل فطری بات ہے، اور اس سے انبیاء علیہم السلام بھی مستثنیٰ نہیں ہیں) البتہ مطالبہ یہ ہے کہ اس کیفیت کے وقت بھی نفس پر پورا قابو رہے ایسا نہ ہو کہ اس سے مغلوب ہو کر آدمی وہ حرکتیں کرنے لگے جو شانِ بندگی کے خلاف ہوں۔
Top