معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 302
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَوْصِنِي ، قَالَ : « لاَ تَغْضَبْ » فَرَدَّدَ مِرَارًا ، قَالَ : « لاَ تَغْضَبْ » (رواه البخارى)
حلم و بردباری یعنی غصہ نہ کرنا اور غصہ کو پی جانا
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، کہ حضرت! مجھے کوئی وصیت فرمائیے۔ آپ نے ارشادفرمایا، کہ غصہ مت کیا کرو، اُس شخص نے پھر اپنی وہی درخواست کئی بار دہرائی، کہ حضرت مجھے اور وصیت فرمائیے، مگر آپ نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ (صحیح بخاری)

تشریح
حلم و بردباری یعنی غصہ نہ کرنا اور غصہ کو پی جانا رسول اللہ ﷺ نے امت کو جن اخلاقکی تاکید و اہتمام کے ساتھ تعلیم دی ہے اُن میں سے ایک حلم و بردباری بھی ہے۔ تشریح۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ سے وصیت کی درخواست کرنے والے یہ صاحب کچھ غیر معمولی قسم کے تیز مزاج اور مغلوب الغضب تھے، اور اس وجہ سے اُن کے لیے مناسب ترین اور مفید ترین وصیت اور نصیحت یہی ہو سکتی تھی کہ " غصہ نہ کیا کرو " اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے بار بار ان کو یہی ایک نصیحت فرمائی۔ اور یہ بھی واقعہ ہے کہ بری عادتوں میں غصہ نہایت ہی خطرناک اور بہت ہی بدانجام عادت ہے۔ غصہ کی حالت میں آدمی کو نہ اللہ تعالیٰ کی حدود کا خیال رہتا ہے نہ اپنے نفع اور نقصان کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ انسان پرشیطان کا قابو جیسا غصہ کی حالت میں چلتا ہے ایسا شاید کسی دوسری حالت میں نہیں چلتا، گویا اس وقت انسان اپنے بس میں نہیں ہوتا، بلکہ شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے، حد یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں آدمی کبھی کبھی کفریہ کلمات بھی بکنے لگتا ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے " غصہ دین و ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح کہ ایلوا شہد کو خراب اور بالکل ہی کڑواکر دیتا ہے "۔ (یہ حدیث " کتاب الایمان " میں درج کی جا چکی ہے)۔ لیکن واضح رہے کہ شریعت میں جس غصہ کی ممانعت اور سخت مذمت کی گئی ہے اس سے مراد وہی غصہ ہے جو نفسیانیت کی وجہ سے ہو اور جس سے مغلوب ہو کر آدمی اللہ تعالیٰ کی حدود اور شریعت کے احکام کا پابند نہ رہے، لیکن جو غصہ اللہ کے لیے اور حق کی بنیاد پر ہو، اور اس میں حدود سے تجاوز نہ ہو، بلکہ بندہ اس میں حدود اللہ کا پورا پابند رہے، تو وہ کمال ایمان کی نشانی اور جلالِ خداوندی کا عکس ہے۔
Top