معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 299
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ وَمَنْ تَحْرُمُ النَّارُ عَلَيْهِ؟ كُلُّ هَيِّنٍ لَيْنٍ قَرِيبٍ سَهْلٍ " (رواه ابوداؤد والترمذى)
نرم مزاجی اور درشت خوئی
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو ایسے شخص کی خبر نہ دوں جو دوزخ کی آگ کے لئے حرام ہے، اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے؟ (سنو میں بتاتا ہوں، دوزخ کی آگ حرام ہے) ہر ایسے شخص پر جو مزاج کا تیز نہ ہو، نرم ہو، لوگوں سے قریب ہونے والا ہو، نرم خو ہو۔

تشریح
اس حدیث میں یہ هَيِّنٍ لَيْنٍ قَرِيبٍ سَهْلٍ چاروں لفظ قریب المعنیٰ ہیں، اور نرم مزاجی کے مختلف پہلوؤں کی یہ ترجمانی کرتے ہیں۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ جو آدمی اپنے مزاج اور رویہ میں نرم ہو، اور نرم خوئی کی وجہ سے لوگوں سے خوب ملتا جلتا ہو، دور دور اور الگ الگ نہ رہتا ہو، اور لوگ بھی اس کی اس اچھی اور شیریں خصلت کی وجہ سے اُس سے بے تکلف اور محبت سے ملتے ہوں، جس سے بات اور معاملہ کرتا ہو، نرمی اور مہربانی سے کرتا ہو، ایسا شخص جنتی ہے، اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے۔ شرح حدیث کے اسی سلسلہ میں بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید کے نصوص اور رسول اللہ ﷺ کی مسلسل تعلیم و تربیت سے صحابہ کرامؓ کے ذہن میں چونکہ یہ بات پوری طرح راسخ ہو چکی تھی (اور دین کی صرف ضروری درجہ کی بھی واقفیت رکھنے والا ہر شخص آج بھی اتنی بات جانتا ہے) کہ اس قسم کی بشارتوں کا تعلق صرف ان ہی لوگوں سے ہے جو ایمان رکھتے ہوں، اور دین کے لازمی مطالبات ادا کرتے ہوں، اس لئے اس قسم کی بشارتوں کے ساتھ عموماً اس شرط کو الفاظ میں ذکر نہیں کیا جاتا۔ (اور بشارت کے موضوع کے لیے یہی مناسب ہے) لیکن ذہنوں میں یہ شرط ملحوظ اورمحفوظ رہنی چاہئے، یہ ایک مسلمہ ایمانی حقیقت ہے کہ ایمان کے بغیر اللہ کے یہاں اعمال اور اخلاق کی کوئی قیمت نہیں۔
Top