معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 295
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ اللهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ ، وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ ، وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ " (رواه مسلم)
نرم مزاجی اور درشت خوئی
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ خود مہربان ہے (نرمی اور مہربانی کرنا اُس کی ذاتی صفت ہے) اور نرمی اورمہربانی کرنا اس کو محبوب بھی ہے (یعنی اس کو یہ بات پسند ہے کہ اس کے بندے بھی آپس میں نرمی اورمہربانی کا برتاؤ کریں) اور نرمی پر وہ اتنا دیتا ہے جتنا کہ درشتی اور سختی پر نہیں دیتا ہے، اور جتنا کہ نرمی کے ماسوا کسی چیز پر بھی نہیں دیتا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے اخلاق کے سلسلہ میں جن باتوں پر خاص طور سے زور دیا ہے، اور آپ کی اخلاقی تعلیم میں جن کو خاص اہمیت حاصل ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور درشتی اور سختی کا رویہ اختیار نہ کرے، اس سلسلہ کے آپ کے چند ارشادات یہاں پڑھیئے۔ تشریح۔۔۔ بعض لوگ اپنے مزاج اور معاملہ اور برتاؤ میں سخت ہوتے ہیں، اور بعض لوگ نرم اور مہربان، اور ناآشنایانِ حقیقت سمجھتے ہیں کہ سخت گیری سے آدمی وہ حاصل کر لیتا ہے جو نرمی سے حاصل نہیں کر سکتا، گویا ایسے لوگوں کے خیال میں سخت گیری کار براری کا وسیلہ اور مقاصد میں کامیابی کی کنجی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد میں اس غلط خیال کی بھی اصلاح فرمائی ہے۔ سب سے پہلے توآپ نے نرم خوئی کی عظمت اور رفعت یہ بیان فرمائی، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے، اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ محبوب ہے کہ اس کے بندوں کا باہمی معاملہ اور برتاؤ بھی مرمی کا ہو۔ پھر آخر میں آپ نے فرمایا کہ مقاصد کا پورا ہونا نہ ہونا، اورکسی چیز کا ملنا تو اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت پر موقوف ہے، جو کچھ ہوتا ہے اسی کے فیصلہ اور اسی کی مشیت سے ہوتا ہے، اور اس کا قانون یہ ہے کہ وہ نرمی پر اس قدر دیتا ہے جس قدر کہ سختی پرنہیں دیتا، بلکہ نرمی کے علاوہ کسی چیز پر بھی اللہ تعالیٰ اتنا نہیں دیتا جتنا کہ نرمی پر دیتا ہے، اس لیے اپنے منافع اور مصالح کے نقطہ نظر سے بھی اپنے تعلقات اورمعاملات میں آدمی کو نرمی اور مہربانی ہی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ دوسرے لفطوں میں اسی کو یوں کہہ لیجئے کہ جو شخص چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر مہربان ہو، اور اس کے کام پورے کرے، اس کو چاہئے کہ وہ دوسروں کے حق میں مہربان ہو، اور بجائے سخت گیری کے نرمی کو اپنا اصول اور اپنا طریقہ بنائے۔
Top