معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 281
عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لَأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ ، وَلَا شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى » قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، تُخْبِرُنَا مَنْ هُمْ ، قَالَ : « هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ ، وَلَا أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا ، فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ ، وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ لَا يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ ، وَلَا يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ » وَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ {أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} (رواه ابو داؤد)
اللہ کے لئے محبت کرنے والوں کا قیامت کے دن خاص امتیاز
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے خوش نصیب بھی ہیں جو نبی یا شہید تو نہیں ہیں، لیکن قیامت کے دن بہت سے انبیاء اور شہداء ان کے خاص مقامِ قرب کی وجہ سے ان پر رشک کریں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہمیں بتلا دیجئے، کہ وہ کون بندے ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے بغیر کسی رشتہ اور قرابت کے اور بغیر کسی مالی لین دین کے روح خداوندی کی وجہ سے باہم محبت کی۔ پس قسم ہے خدا کی، ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے بلکہ سراسر نور ہوں گے، اور وہ نور کے منبروں پر ہوں گے، اور عام انسانوں کو جس وقت خوفو ہراس ہو گا اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے، اور جس وقت عام انسان مبتلائے غم ہوں گے وہ اس وقت بے غم ہوں گے، اور اس موقع پر آپ نے یہ آیت پڑھی: " أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ " (معلوم ہونا چاہئے کہ جو اللہ کے دوست اور اس سے خاص تعلق رکھنے والے ہیں، اُن کو خوف و غم نہ ہو گا)۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
اس دنیا میں خونی رشتہ اور قرابت کی وجہ سے محبت و تعلق کا ہونا ایک ایسی عمومی اور فطری بات ہے جو انسانوں کے علاوہ عام جانوروں بلکہ درندوں میں بھی موجود ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کی مالی امدادکرتا ہے، اس کو ہدیے اور تحفے دیتا ہے تو اُس میں اُس محسن کی محبت پیداہو جانابھی ایک ایسی فطری بات ہے جو کافروں، مشرکوں اور فاسقوں فاجروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن کسی رشتہ اور قرابت کے بغیر اور کسی مالی لین دین اور کسی ہدیے اور تحفے کے بغیر محض اللہ کے دین کے تعلق سے کسی سے محبت کرنا ایک ایسی ایمانی صفت ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدر و قیمت ہے اور اس کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کا خاص محبوب و مقرب بن جاتا ہے، اور قیامت میں اس پر اللہ تعالیٰ کی ایسی نوازشیں ہوں گی کہ انبیاء اور شہداء اس پر رشک کریں گے۔ اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ اس درجہ اور مرتبہ میں انبیاء و شہداء سے افضل اور بلند تر ہوں گے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کم درجے کے کسی آدمی کو کسی خاص اچھی حالت میں دیکھ کر اس سے اونچے درجے والوں کو بھی اس پر رشک آنے لگتا ہے، یہ بات عقل و منطق کے لحاظ سے اگرچہ بہت سوں کو مستبعد معلوم ہوگی، لیکن واقعات کی دنیا میں بکثرت ایسا ہوتا رہتا ہے، اس لیے جو کچھ کہا گیا ہے یہ زبردستی کی تاویل نہیں ہے، بلکہ واقعی حقیقت ہے۔ یہ بندگانِ خدا جن کے مقام قرب پر انبیاء و شہداء کو رشک آئے گا۔ حدیث میں ان کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے: " هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوْا بِرُوْحِ اللهِ " اس لفظ رُوْح کو " ر " کے پیش کے ساتھ رُوْح بھی پڑھا گیا ہے، اور زبر کے ساتھ رَوْح بھی۔ ہمارے نزدیک دونوں صورتوں میں اس سے اللہ کا دین مراد ہے، اور مطلب یہی ہے کہ یہ وہ بندگانِ خدا ہوں گے جنہوں نے اس دنیوی زندگی میں اللہ کے دین کے تعلق سے باہم محبت و الفت کی۔ دین اُس اُخروی زندگی کے لئے جو اصل زندگی ہے بمنزلہ روح کے بھی ہے، اور وہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت اور رحمت بھی ہے، اور روح کے معنی رحمت، نعمت اور راحت کے ہیں۔ الغرض اس لفظ کو خواہ ر کے پیش کے ساتھ پڑھا جائے یا زبر کے ساتھ، ہر حال میں مطلب ایک ہی ہو گا۔ حدیث کے آخری حصے میں فرمایا گیا ہے، کہ اللہ کے دین کے تعلق سے باہم محبت کرنے والے ان بندگانِ خدا پر اللہ تعالیٰ کا ایک خاص الخاص انعام یہ ہو گا کہ قیامت کے دن جب کہ عام انسانوں پر خوف اور غم چھایا ہوا ہو گا، ان کے دلوں پر خوف اور غم کا کوئی اثر نہ ہو گا، اور یہ بالکل مطمئن اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے شاداں و فرحاں ہوں گے۔ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
Top