معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 272
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لاَ يَحْقِرَنَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ ، وَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَلْقَ أَخَاهُ بِوَجْهٍ طَلْقٍ ، وَإِنْ اشْتَرَيْتَ لَحْمًا أَوْ طَبَخْتَ قِدْرًا فَأَكْثِرْ مَرَقَتَهُ وَاغْرِفْ لِجَارِكَ مِنْهُ . (رواه الترمذى)
چھوٹے سے چھوٹے احسان کی بھی اللہ کے نزدیک بڑی قیمت ہے
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی احسان کی کسی صورت اور کسی قسم کو بھی حقیر نہ سمجھے، پس اگر اپنے بھائی کو دینے کے لئے کچھ بھی نہ پائے تو اتنا ہی کرے کہ شگفتہ روئی کے ساتھ اُس سے ملاقات کرے (یہ بھی حسن سلوک کی ایک صورت ہے) اور جب تم گوشت خریدو یا ہانڈی پکاؤ تو اُس میں شوربا بڑھا دیا کرو، پھر چمچہ بھر اُس میں سے اپنے پڑوسی کے لئے بھی نکالا کرو۔ (جامع ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے اعزہ و اقارب اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کیا کرے حسب استطاعت اُن کو تحفے دیا کرے، اور اگر تحفہ دینے کے لئے کوئی زیادہ بڑھیا چیزنہ ہو تو جو کچھ میسر ہو وہی دے دے، اور اس کو حقیر اور معمولی سمجھ کے دینے سے نہ رُکے، اور اگر کچھ بھی میسر نہ ہو تو اتنا ہی کرے کہ شگفتہ روئی اور خندہ جبینی کے ساتھ اُن سے ملا کرے، یہ بھی حسن سلوک کی ایک صورت ہے، اور تحفہ تحائف کی طرح اس سے بھی باہمی محبت و تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں غریب اور نادارآدمی بھی اتنا تو کر ہی سکتا ہے، کہ جب کبھی گھر میں گوشت پکے تو اس میں شوربا کچھ زیادہ کر لیا جائے، اور کسی پڑوس کے گھر بھی اس میں سے بھیج دیا جائے۔ دراصل حسن سلوک کی ان آخری صورتوں کا ذکر حضور ﷺ نے بطور مثال کے کیا ہے، ورنہ مطلب یہ ہے کہ جس سے جو ہو سکے وہ دوسروں کے ساتھ احسان کرے۔
Top