معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 255
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَّرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا ، فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : « مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا؟ رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا » . وَرَأَى قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ : « مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ؟ » قُلْنَا : نَحْنُ . قَالَ : « إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ » (رواه ابو داؤد)
چڑیوں اور چیونٹیوں تک کو ستانے کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن اپنے والد ماجد سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے، اس اثناء میں ہماری نظر ایک سرخ چڑیا (غالباً نیک کنٹھ) پر پڑی، جس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اُس کے دو بچے بھی تھے ہم نے اُن بچوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا آئی اور ہمارے سروں پر منڈلانے لگی، اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، آپ نے فرمایا، کس نے اس کے بچے پکڑ کر اسے ستایا ہے؟ اس کے بچے اس کو واپس کر دو۔ اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی دیکھی (یعنی زمین کا ایک ایسا ٹکڑا جہاں چیونٹیوں کے بہت سوراخ تھے اور چیونٹیوں کی بہت کثرت تھی) ہم نے وہاں آگ لگا دی تھی۔ آپ نے فرمایا: کس نے ان کو آپ سے جلایا ہے؟ ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ہم نے ہی آگ لگائی ہے۔ آپ نے فرمایا آگ کے پیدا کرنے والے خدا کے سوا کسی کے لئے یہ سزاوار نہیں ہے کہ وہ کسی جاندار کو آگ کاعذاب دے۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جانوروں حتی کہ زمین کی چیونٹیوں کا بھی حق ہے کہ اُن کو بلا وجہ نہ ستایا جائے۔
Top