معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 254
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ : دَخَلَ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَإِذَا فِيْهِ جَمَلٌ ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ ، فَأَتَاهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَكَتَ ، فَقَالَ : « مَنْ رَبُّ هَذَا الْجَمَلِ ، لِمَنْ هَذَا الْجَمَلُ؟ » ، فَجَاءَ فَتًى مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ : لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ . فَقَالَ : « أَفَلَا تَتَّقِي اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهِيمَةِ الَّتِي مَلَّكَكَ اللَّهُ إِيَّاهَا؟ ، فَإِنَّهُ شَكَا إِلَيَّ أَنَّكَ تُجِيعُهُ وَتُدْئِبُهُ » (رواه ابو داؤد)
اپنے پالے ہوئے جانوروں کے چارے پانی کی خبر گیری کا حکم اور انہیں تکلیف دینے کی ممانعت
عبداللہ بن جعفرؓسے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے، وہاں ایک اونٹ تھا، جب اُس اونٹ نے آپ کو دیکھا، تو ایسا ڈکرایا اور ایسی درد بھری آواز اُس نے نکالی جیسی بچے کے جدا ہونے پر اونٹنی کی آواز نکلتی ہے، اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ اُس کے قریب تشریف لے گئے، اور آپ نے اس کی کنوتیوں پر اپنا دست شفقت پھیرا (جیسے کہ گھوڑے یا اونٹ پر پیار کرتے وقت ہاتھ پھیرا جاتا ہے) وہ اونٹ خاموش ہوگیا۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ اس کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نو جوان آئے، اور انہوں نے عرض کیا، حضرت! یہ اونٹ میرا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس بیچارے بے زبان جانور کے بارہ میں تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے، اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو، اور زیادہ کام لے کر تم اس کو بہت دکھ پہنچاتے ہو۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے معجزانہ طور پر پرندوں کی بولی سمجھ لیتے تھے، جس کا ذخر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے (وَعُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ) اسی طرح رسول اللہ ﷺ بھی جانوروں کی بات چیت معجزانہ طور پر سمجھ لیتے تھے۔ اس حدیث میں اونٹ کی شکایت کو سمجھنے کا، اور اس سے بعد والی حدیث میں ایک چڑیا کی شکایت کو سمجھنے کا جو ذکر ہے، بظاہر وہ اسی قبیل سے ہے، اور گویا حضور ﷺ کا ایک معجزہ ہے۔ حدیث کی خاص تعلیم یہ ہے کہ جس کے پاس کوئی جانور ہو، اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُس کے کھلانے پلانے سے غافل نہ ہو، اور اُس پر کام کا بوجھ بھی اُس کی قوت سے زیادہ نہ ڈالے۔ دنیا نے " انسدادِ بے رحمی " کی ذمہ داری کو اب کچھ سمجھا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اب سے قریباً چودہ سو برس پہلے دنیا کو یہ سکھایا تھا۔
Top