معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 238
عَنْ مُعَاذٍ قَالَ : أَوْصَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشْرِ كَلِمَاتٍ قَالَ : " لَا تُشْرِكْ بِاللهِ شَيْئًا وَإِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ ، وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِدَيْكَ ، وَإِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ ، وَلَا تَتْرُكَنَّ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا؛ فَإِنَّ مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللهِ ، وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرًا؛ فَإِنَّهُ رَأْسُ كُلِّ فَاحِشَةٍ ، وَإِيَّاكَ وَالْمَعْصِيَةَ؛فَإِنَّ بِالْمَعْصِيَةِ حَلَّ سَخَطُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَإِيَّاكَ وَالْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ وَإِنْ هَلَكَ النَّاسُ ، وَإِذَا أَصَابَ النَّاسَ مُوتٌ وَأَنْتَ فِيهِمْ فَاثْبُتْ ، وَأَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ مِنْ طَوْلِكَ ، وَلَا تَرْفَعْ عَنْهُمْ عَصَاكَ أَدَبًا وَأَخِفْهُمْ فِي اللهِ " (رواه احمد)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دفعہ) مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی، فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اگرچہ تم کو قتل کر دیا جائے اور جلا ڈالا جائے۔ اور اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو، اگرچہ وہ تم کو حکم دیں کہ اپنے اہل و عیال اور مال و منال کو چھوڑ کے نکل جاؤ۔ اور کبھی ایک فرض نماز بھی قصداً نہ چھوڑو، کیوں کہ جس نے ایک فرض نماز بھی قصداً چھوڑی، اس کے لئے اللہ کا عہد اور ذمہ نہیں رہا۔ اور ہرگز کبھی شراب نہ پیو، کیوں کہ شراب نوشی سارے فواحش کی جڑ بنیاد ہے، (اسی لئے اس کو ام الخبائث کہا گیا ہے)۔ اور ہر گناہ سے بچو کیوں کہ گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غصہ نازل ہوتا ہے۔ اور جہاد کے معرکہ سے پیٹھ پھیر کے نہ بھاگو، اگرچہ کُشتوں کے پشتے لگ رہے ہوں۔ اور جب تم کسی جگہ پر لوگوں کے ساتھ رہتے ہو، اور وہاں (کسی وبائی مرض کی وجہ سے) موت کا بازار گرم ہو جائے تو تم وہیں جمے رہو، (جان بچانے کے خیال سے وہاں سے مت بھاگو) اور اپنے اہل و عیال پر اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق خرچ کرو (نہ بخل سے کام لو کہ پیسہ پاس ہوتے ہوئے اُن کو تکلیف ہو، اور نہ خرچ کرنے میں اپنی حیثیت سے آگے بڑھو)۔ اور ادب دینے کے لئے اُن پر (حسبِ ضرورت و موقع) سختی بھی کیا کرو۔ اور اُن کو اللہ سے ڈرایا بھی کرو۔ (مسند احمد)

تشریح
حدیث اپنے مطلب کے لحاظ سے بالکل واضح ہے۔ تاہم چند باتیں قابل ذکر ہیں، شریعت کا مشہور و معروف مسئلہ ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے، کہ اگر کسی شخص کو شرک و کفر پر مجبور کیا جائے اور اندازہ یہ ہو کہ اگر میں انکار پر ہی قائم رہوں گا، تو مار ڈالا جاؤں گا، تو ایسے موقع پر اس کی اجازت ہے، کہ صرف زبان سے شرک و کفر کا اظہار کر کے اُس وقت جان بچا لی جائے۔ لیکن عزیمت اور افضل یہ ہے کہ زبان سے بھی شرک و کفر کا اظہار نہ کرے، اگرچہ جان چلی جائے۔ حضرت معاذ ؓ چونکہ خواص میں سے تھے، اس لئے حضور ﷺ نے ان کو نصیحت فرمائی کہ وہ ایسے موقع پر عزیمت ہی پر عمل کریں، اور جان کی پروا نہ کریں۔ اسی طرح والدین کی اطاعت کے بارے میں جو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ اہل و عیال اور اپنا کمایا ہوا سارا مال چھوڑ کے نکل جانے کو کہیں، تب بھی ان کی نافرمانی نہ کرو، یہ بھی اولیٰ اور افضل کا بیان ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اولاد کو چاہئے کہ اُن کے سخت سے سخت حکم اور ناگوار سے ناگوار حکم کو بھی مانے، ورنہ مسئلہ یہ ہے کہ ماں باپ کے ایسے اسخت اور ناواجب مطالبات کا پورا کرنا اولاد پر شرعاً واجب نہیں ہے، ہاں اگر رضاکارانہ طور پر اولاد ایسا کرے، (اور کسی دوسرے کی اس میں حق تلفی نہ ہو) تو افضل ہے اور بڑی بلند بات ہے۔ نماز کے متعلق آپ نے جو یہ ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ایک فرض نماز قصداً ترک کی، اس کے لیے اللہ کا عہد و ذمہ نہیں رہا۔ یہ اُن حدیثوں میں سے ہے جن کی بناء پر حضرت امام شافعیؒ اور بعض دوسرے ائمہ نے تارک صلوٰۃ کے قتل کا فتویٰ دیا ہے۔ حضرت امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ حاکم اسلام اس کو جو سزا دینا مناسب سمجھے دے اور قید کر دے، اللہ کے عہد و ذمہ کی برأت کی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے۔ بہر حال اس میں شبہ نہیں کہ عمداً فرض نماز چھوڑنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور یہ گناہ اگر عین کفر نہیں ہے تو قریب بہ کفر ضرور ہے۔ حضور ﷺ کی اس جامع وصیت کے آخری حصہ کا تعلق اولاد کی خبر گیری اور ان کی تادیب و ترہیب سے ہے، اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ اہم حضور ﷺ کی بالکل آخری وصیت یہ ہے " وَأَخِفْهُمْ فِي اللهِ " یعنی تمہارے ذمہ یہ ہے کہ اپنے اہل و عیال کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا کرتے رہو، اس کے لئے جو تدبیریں بھی کرنی پڑیں وہ گویا ہمارے فرائض میں سے ہیں، اور ہم اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہوں گے۔
Top