معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 237
عَنْ اَبِىْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَمَرَنِىْ رَبِّىْ بِتِسْعٍ خَشْيَةِ اللهِ فِي السِّرِ وَالْإِعْلَانِيَةِ ، وَكَلِمَةَ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا ، وَالْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى ، وَأَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعَنِىْ ، وَأُعْطِىَ مَنْ حَرَمَنِىْ ، وَاَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنِىْ وَاَنْ يَّكُوْنَ صَمْتِى فِكْرًا وَنُطْقِىْ ذِكْرًا وَنَظْرِىْ عِبْرَةً وَآمُرَ بِالْعُرْفِ وَقِيْلَ بِالْمَعْرُوْفِ . (رواه زرين)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: مجھے میرے پروردگار نے ان نو (۹) باتوں کا خاص طور سے حکم فرمایا ہے۔ ایک اللہ سے ڈرنا خلوت میں اور جلوت میں۔ اور عدل و انصاف کی بات کہنا غصہ میں اور رضامندی میں (یعنی ایسا نہ ہو کہ جب کسی سے ناراضی اور اس پر غصہ ہو تو اس کی حق تلفی اور اس کے ساتھ بے انصافی کی جائے، اور جب کسی سے دوستی اور رضامندی میں ہو تو اس کی بے جا حمایت اور طرفداری کی جائے، بلکہ ہر حال میں عدل و انصاف اور اعتدال کی راہ پر چلا جائے) اور حکم فرمایا میانہ روی پر قائم رہنے کا، غریبی و ناداری و فراخ دستی و دولت مندی کی دونوں حالتوں میں (یعنی جب اللہ تعالیٰ ناداری اور غریبی میں مبتلا کرے تو بے صبری اور پریشاں حالی کا اظہار نہ ہو) اور جب وہ فراخ دستی اور خوشحالی نصیب فرمائے، تو بندہ اپنی حقیقت کو بھول کر غرور اور سرکشی میں مبتلا نہ ہو جائے۔ الغرض ان دونوں امتحانی حالتوں میں افراط و تفریط سے بچا جائے، اور اپنی روش درمیانی رکھی جائے، یہی وہ میانہ روی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم فرمایا ہے۔ (آگے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں) اور مجھے حکم فرمایا کہ میں ان اہلِ قرابت کے ساتھ بھی رشتہ جوڑوں اور ان کے حقوق قرابت اچھی طرح ادا کروں جو مجھ سے رشتہ قرابت توڑیں اور میرے ساتھ بدسلوکی کریں، اور یہ کہ میں ان لوگوں کو بھی دوں جنہوں نے مجھے محروم رکھا ہو، اور میرا حق مجھے نہ دیا ہو، اور یہ کہ میں ان لوگوں کو معاف کر دوں جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا ہو اور مجھے ستایا ہو، اور مجھے حکم دیا ہے کہ میری خاموشی میں تفکر ہو (یعنی جس وقت میں خاموش ہوں تو اس وقت سوچنے کی چیزیں سوچوں، اور جو چیزیں قابل تفکر ہیں ان میں غور و تفکر کروں، مثلاً اللہ کی صفات اور اس کی آیات، اور مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ معاملہ میرے ساتھ کیا ہے، اور اس کا مجھے کیا حیم ہے، اور میرا معاملہ اللہ کے ساتھ اور اس کے احکام کے ساتھ کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے، اور میرا انجام کیا ہونے والا ہے، اور مثلاً یہ کہ اللہ کے غافل بندوں کو کس طرح اللہ سے جوڑا جائے، الغرض خاموشی میں اس طرح کا تفکر ہو)۔ اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میری گفتگو ذکر ہو (یعنی میں جب بھی بولوں اور جو بھی بولوں اس کا اللہ سے تعلق ہو، خواہ اس طرح کہ وہ اللہ کی ثنا و صفت ہو، یا اس کے احکام کی تعلیم و تبلیغ ہو، یا اس طرح کہ اس میں اللہ کے احکام اور حدود کی رعایت اور نگہداشت ہو، ان سب صورتوں میں جو گفتگو ہوگی وہ " ذکر " کے قبیل سے ہوگی) اور مجھے حکم دیا ہے کہ میری نظر عبرت والی ہو، (یعنی میں جس چیز کو دیکھوں اس سے سبق اور عبرت حاصل کروں) اور لوگوں کو حکم کروں اچھی باتوں کا۔ (رزین)

تشریح
ضروری تشریح ترجمہ کے ضمن میں ہو چکی ہے۔ صرف ایک بات اور قابلِ ذکر ہے، کہ حدیث کا آخری جز (وامر بالمعروف) ان نو باتوں کے علاوہ ہے، گویا حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے وہ خاص نو حکم بیان فرمانے کے بعد جو آپ اس موقع پر بیان فرمانا چاہتے تھے، اللہ تعالیٰ کا ایک اور اہم حکم بھی بیان فرما دیا جس کے لئے آپ نبی و رسول ہونے کی حیثیت سے خاص طور سے مامور ہیں، اور وہ آپ کا خاص الخاص فرضِ منصبی ہے، یعنی " امر بالمعروف " جس میں نہی عن المنکر بھی داخل ہے، کیوں کہ وہ دراصل امر بالمعروف ہی کی منفی صورت ہے۔ یہ حدیث اور اس سے پہلی حدیث بھی بڑی اہم تعلیمات کی جامع ہیں، اور حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر عمل نصیب فرما دیں، تو اصلاح و تزکیہ کے لئے یہی دو حدیثیں کافی ہیں۔
Top