معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 235
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ يَأْخُذُ عَنِّي هَؤُلاَءِ الكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ؟ قُلْتُ : أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَعَدَّ خَمْسًا فَقَالَ : اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ ، وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ ، وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا ، وَلاَ تُكْثِرِ الضَّحِكَ ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ القَلْبَ . (رواه احمد والترمذى)
رسول اللہ ﷺ کی جامع اور اہم نصیحتیں اور وصیتیں
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دن ہم لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا، کون ہے جو مجھ سے سیکھ لے یہ چند خاص باتیں، پھر وہ خود ان پر عمل کرے یا دوسرے عمل کرنے والوں کو بتائے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ تو آپ نے (از راہ شفقت) میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیا، اور گن کر یہ پانچ باتیں بتائیں۔ فرمایا: جو چیزیں اللہ نے حرام قرار دی ہیں اُن سے بچو، اور اُن سے پورا پورا پرہیز کرو، اگر تم نے ایسا کیا، تو تم بہت بڑے عبادت گزار ہو، (اور یہ عبدت نفلی عبادت کی کثرت سے افضل ہے)۔ دوسری بات آپ نے یہ فرمائی کہ: اللہ نے جو تمہاری قسمت میں لکھا ہے اس پر راضی اور مطمئن ہو جاؤ، اگر ایسا کرو گے تو تم بڑے بے نیاز اور دولت مند ہو جاؤ گے۔ اور تیسری بات یہ کہ: اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر ایسا کرو گے، تو تم مؤمن کامل ہو جاؤ گے۔ اور چوتھی بات یہ کہ جو تم اپنے لئے چاہتے اور پسند کرتے ہو، وہی دوسرے لوگوں کے لئے بھی چاہو اور پسند کرو، تم ایسا کرو گے تو حقیقی مسلم اور پورے مسلمان ہو جاؤ گے۔ اور پانچویں بات یہ ہے کہ: زیادہ مت ہنسا کرو، کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (مسند احمد، جامع ترمذی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ یہ پانچ باتیں بتانا چاہتے تھے، آپ نے مخاطبین میں خاص طلب پیدا کرنے کے لئے، اور ان کے دلوں کو پوری طرح بیدار اور متوجہ کرنے کے لئے پہلے ارشاد فرمایا کہ: میں اس وقت کچھ خاص باتیں بتانا اور سکھانا چاہتا ہوں، تم میں سے کون ان کو سیکھنا چاہتا ہے، لیکن اس کو ان باتوں کایہ حق ادا کرنا ہو گا کہ وہ خود ان پر عمل کرے اور دوسروں کو بھی بتلائے، تا کہ وہ بھی عمل کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو آدمی دین کی باتیں سیکھے اس پر دو حق ہیں ایک یہ کہ خود ان پر عمل کرے اور دوسرے یہ کہ اوروں کو پہنچائے اور بتلائے، بلکہ اگر خود پورا عمل نہ کرے تب بھی دوسروں کو بتانے سے دریغ نہ کرے۔ جو پانچ باتیں حضور ﷺ نے اس موقع پر تعلیم فرمائیں وہ بڑی اہم حقیقتیں ہیں۔ پہلی بات آپ نے یہ ارشاد فرمائی، کہ: بڑا عبادت گذار بندہ وہ ہے جو محرمات اور ممنوعات سے پرہیز کرتا ہے، اگرچہ زیادہ نفلی نمازیں نہ پڑھتا ہو، نفلی روزے زیادہ نہ رکھتا ہو، ذکر و تسبیح میں بہت زیادہ مشغول نہ رہتا ہو۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ: اللہ کی طرف سے جو مقسوم اور مقدور ہے اس پر راضی ہو جانے سے آدمی کو برا اطمینان اور بڑی بے فکری نصیب ہو جاتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کمالِ ایمان کی شرط ہے۔ چوتھی بات یہ کہ، کامل مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی دوسروں کا اتنا خیر خواہ اور بہی خوا ہو، کہ جو اپنے لئے چاہے وہی دوسروں کے لئے چاہے۔ اور پانچویں بات یہ کہ، زیادہ نہ ہنسا جائے، کیوں کہ یہ عادت دل کو مردہ اور بے حس کر دیتی ہے۔ اگر اللہ کی توفیق سے اس کا کوئی بندہ آج بھی ان پانچ باتوں پر کار بند ہو جائے تو دنیا ہی میں وہ جنت کا مزا چکھک لے گا، اس کی زندگی پاک صاف اور بڑے اطمینان والی ہوگی، دور قریب کے لوگ اس سے محبت کریں گے، اس کا دل اللہ کے ذکر سے زندہ اور شاداب ہو گا، اور آخرت میں اللہ کی رضا اور جنت کی جو نعمتیں اس کوملیں گے ان کی قدر و قیمت اور حقیقی لذت تو بس وہیں جا کر معلوم ہوگی۔
Top