معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 224
عَنْ عُبَيْدِ بْنِ خَالِدٍ اَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ ، فَقُتِلَ أَحَدُهُمَا ، فِىْ سَبِيْلِ اللهِ ثُمَّ مَاتَ الْآخَرُ بَعْدَهُ بِجُمُعَةٍ ، أَوْ نَحْوِهَا ، فَصَلُّوْا عَلَيْهِ ، فَقَالَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا قُلْتُمْ؟ » فَقُلْنَا : دَعَوْنَا الله ، اَنْ يَّغْفِرَ لَهُ وَيَرْحَمَهُ وَيَلْحِقَهُ بِصَاحِبِهِ ، فَقَالَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « فَأَيْنَ صَلَاتُهُ وَعَمَلُهُ بَعْدَ عَمَلِهِ اَوْ قَالَ صِيَامُهُ بَعْدَ صِيَامِهِ لَمَا بَيْنَهُمَا اَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ . (رواه ابو داؤد والنسائى)
اگر حُسنِ عمل کی توفیق ہو ، تو زندگی بڑی نعمت ہے
عبید بن خالد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو شخصوں کے درمیان مواخات قائم فرمائی (یعنی اس وقت کے دستور کے مطابق ان کو باہم بھائی بھائی بنایا) پھر یہ ہوا کہ ان میں سے ایک صاحب (قریبی ہی زمانہ میں جہاد میں شہید ہو گئے) پھر ایک ہی ہفتہ بعد یا اس کے قریب دوسرے صاحب کا بھی انتقال ہوگیا (یعنی ان کا انتقال کسی بیماری سے گھر ہی پر ہوا) تو صحابہؓ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی، رسول اللہ ﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھنے والے ان اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے (نماز جنازہ میں) کیا کہا (یعنی مرنے والے بھائی کے حق میں تم نے اللہ سے کیا دُعا کی؟) انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے اس کے لئے یہ دعا کی، کہ اللہ اس کی مغفرت فرمائے، اس پر رحمت فرمائے اور (ان کے جو ساتھی شہید ہو کے اللہ کے قرب و رضا کا وہ مقام حاصل کر چکے ہیں، جو شہیدوں کو حاصل ہوتا ہے، اللہ ان کو بھی اپنے فضل و کرم سے اسی مقام پر پہنچا کے) اپنے اس بھائی اور ساتھی کے ساتھ کر دے، (تا کہ جنت میں اسی طرح ساتھ رہیں، جس طرح کہ یہاں رہتے تھے) یہ جواب سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اس کی وہ نمازیں کہاں گئیں جو اس شہید ہونے والے بھائی کی نمازوں کے بعد (یعنی شہادت کی وجہ سے ان کی نمازوں کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد) انہوں نے پڑھیں، اور دوسرے وہ اعمال خیر کہاں گئے، جو اس شہید کے اعمال کے بعد انہوں نے کئے، یا آپ نے یوں فرمایا، کہ اس کے وہ روزے کہاں گئے جو اس بھائی کے روزوں کے بعد انہوں نے رکھے۔ (راوی کو شک ہے کہ نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ نے عام اعمال کا ذکر کیا تھا، یا روزوں کا کر فرمایا تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کے مقامات میں تو اس سے بھی زیادہ فاصلہ ہے جتنا کہ زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔ (ابو داؤد، نسائی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم نے بعد میں مرنے والے اس بھائی کا درجہ پہلے شہید ہونے والے اس بھائی سے کمتر سمجھا، اسی واسطے تم نے اللہ سے یہ دعا کی، کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے اس کو بھی اس شہید بھائی کے ساتھ کر دے، حالانکہ بعد میں میں مرنے والے بھائی نے شہید ہونے والے بھائی کی شہادت کے بعد بھی جو نمازیں پڑھیں، اور جو روزے رکھے، اور جو دوسرے اعمالِ خیر کئے، تمہیں معلوم نہیں کہ ان کی وجہ سے اس کا درجہ پہلے شہید ہونے والے اس بھائی سے بہت زیادہ بلند ہو چکا ہے، یہاں تک کہ دونوں کے مقامات اور درجات میں زمین و آسمان سے بھی زیادہ فرق اور فاصلہ ہے۔ راہِ خدا میں جان دینا بلاشبہ بہت اونچا عمل ہے، اور اس کی بڑی فضیلتیں ہیں، لیکن نماز، روزہ وغیرہ اعمالِ خیر اگر اخلاص اور احسانی کیفیت کے ساتھ نصیب ہوں، تو ان کے ذریعہ جو ترقی اور بلندی نصیب ہوتی ہے، اس کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ نیز چونکہ بعد میں مرنے والے یہ بھائی بھی راہِ خدا کے سپاہی اور جہاد کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہنے والوں میں سے تھے، اس لئے بستر پر موت آنے کے باوجود وہ اپنی اس نیت اور شوقِ شہادت کی وجہ سے مقامِ شہادت پر بھی فائز ہوئے، اور بعد کے نماز، روزہ وغیرہ اعمالِ خیر نے ان کے درجہ کو اس قدر بلند کر دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں کے درجوں میں زمین اور آسمان سے زیادہ فاصلہ بتلا دیا۔
Top