معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 219
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : « رُبَّ أَشْعَثَ ، اَغْبَرَ مَدْفُوعٍ بِالْأَبْوَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ » (رواه مسلم)
کسی کی ظاہری خستہ حالی اور غربت کی وجہ سے اس کو حقیر نہ سمجھو
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: بہت سے پراگندہ بالوں والے گرد و غبار میں اٹے ہوئے جن کو دروازوں پر دھکے دئیے جائیں (اللہ کے نزدیک ان کا مقام یہ ہوتا ہے کہ) اگر اللہ پر وہ قسم کھائیں تو ان کی قسم کو اللہ ضرور پورا کرے۔ (مسلم)

تشریح
اس حدیث کا مطلب بھی یہی ہے کہ کسی کو میلا کچیلا، خستہ حال، اور پراگندہ بال دیکھ کر حقیر نہ سمجھنا چاہئے، ایسوں میں اللہ کے بعض بندے وہ بھی ہوتے ہیں، جو اللہ کے لیے اپنے کو مٹا کر اس کے یہاں ایسا تقرب اور محبوبیت و مقبولیت کا وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں، کہ اگر اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر وہ کسی معاملہ میں قسم کھا جائیں، کہ اللہ ایسا ہی کرے گا، یا ایسا نہیں کرے گا، تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کی لاج رکھتا ہے، اور ایسا ہی کر دیتا ہے۔ واضح رہے کہ حدیث کا مقصد و منشا پراگندہ بالی اور گرد آلودگی، اور میلا کچیلا رہنے کی ترغیب دینا نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے) حدیث و سیر کی متواتر شہادت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عام طور سے صاف ستھرا رہنا پسند فرماتے تھے، اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے، بلکہ بعض لوگوں کو جب آپ نے اس حال میں دیکھا کہ اس بارہ میں وہ تفریط و غلو میں مبتلا ہو گئے ہیں، اور انہوں نے اپنا حلیہ بگاڑ رکھا ہے تو آپ نے ان کو اپنی اس حالت کے درست کرنے کا حکم دیا۔ پس یہ سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ اس حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ لوگ پرگندہ بال، میلے کچیلے اور گرد و غبار میں اٹے ہوئے رہا کریں۔ بلکہ جیسا کہ عرض کیا گیا، حدیث کا مقصد و منشا اور اس کی روح یہی ہے، کہ اللہ کے کسی بندہ کو خستہ حال اور گرد آلود دیکھ کر اس کو حقیر اور اپنے سے کمتر نہ سمجھا جائے، کیونکہ بہت سے اس حال میں رہنے والے بھی خاصانِ خدا میں سے ہوتے ہیں۔ پس اس حدیث میں دراصل ان لوگوں کے خیال اور حال کی اصلاح کی گئی ہے جو اللہ کے غریب و خستہ حال بندوں کو ناکارہ نکما سمجھتے ہیں، اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اور اپنے ذہنی تکبر کی وجہ سے ان کے ساتھ ملنے جلنے اور انکے پاس بیٹھنے سے بچتے ہیں، اور اسی میں اپنی بڑائی کی حفاظت سمجھتے ہیں۔
Top