معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 216
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِذَا رَأَيْتَ اللهَ يُعْطِي الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْيَا عَلَى مَعَاصِيهِ مَا يُحِبُّ ، فَإِنَّمَا هُوَ اسْتِدْرَاجٌ " ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : {فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ} (رواه احمد)
معصیت کی زندگی کے ساتھ اگر دنیا میں نعمتیں مل رہی ہیں تو یہ استدراج ہے
عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اس کی معصیت کوشی اور نافرمانی کے باوجود دنیا کی وہ نعمتیں (مال و دولت اور راحت و عزت وغیرہ) دے رہا ہے، جن کا وہ بندہ خواہاں اور طالب ہے، تو سمجھ لو کہ وہ اس کے حق میں استدراج ہے۔ یہ فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے (بطور استشہاد کے) قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: " فَلَمَّانَسُوامَاذُكِّرُوابِهِ الاية " جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: جب انہوں نے بھلا دیا ان باتوں کو جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے کھول دئیے ان پر دنیا کی سب نعمتوں کے دروازے، یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں کے ملنے پر خوب مست ہوئے، اور اترائے، تو ہم نے ایک دم ان کو اپنی سخت پکڑ میں لے لیا، پس وہ حیران و ششدر اور آئندہ کے لیے بالکل نااُمید ہو کر رہ گئے۔ (مسند احمد)

تشریح
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جو قوانین چل رہے ہیں جن کے مطابق افراد یا اقوام کے ساتھ وہ معاملہ فرماتا ہے ان میں سے ایک " استدراج " بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کا کوئی مجرم اور باغی بندہ یا گروہ معصیت کوشی اور سرکشی میں حد سے بڑھ جاتا ہے، اور آخرت اور خدا کے احکام سے بالکل بے پروا اور بے فکر ہو کر زندگی گذارنے لگتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہو کر کبھی کبھی ایسا بھی کرتا ہے کہ اس کی رسی اور دراز کر دی جاتی ہے، اور کچھ مدت کے لیے نعمتوں کے دروازے اس پر کھول دیئے جاتے ہیں، تا کہ وہ اور زیادہ اطمینان اور سرمستی کے ساتھ اس خداس فراموشی اور سر کشی میں آگے بڑھتا رہے، اور پھر بڑی سے بڑی سزا پائے۔ دین کی خاص زبان میں اللہ تعالیٰ کے اس معاملہ کو " استدراج " کہا جاتا ہے۔ پس مندرجہ بالا حدیث کا مطلب یہ ہوا، کہ جب کسی بندہ یا گروہ کو تم اس حال میں دیکھو کہ وہ خدا اور آخرت کو بالکل بُھلا کر مجرمانہ اور باغیانہ زندگی گذار رہے ہیں، اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو انواع و اقسام کی نعمتیں مل رہی ہیں۔ اور وہ دنیا کے مزے لوٹ رہے ہیں، تو کسی کو یہ مغالطہ نہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو کر اپنی نعمتیں ان پر اُنڈیل رہا ہے، بلکہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی رسی دراز کر رہا ہے، اور ان کا آخری انجام بہت برا ہونے والا ہے۔
Top