معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 212
عَنْ رَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : كُنَّا فِي مَجْلِسٍ فَطَلَعَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى رَأْسِهِ أَثَرُ مَاءٍ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ، نَرَاكَ طَيِّبَ النَّفْسِ ، قَالَ : " أَجَلْ " ، قَالَ : ثُمَّ خَاضَ الْقَوْمُ فِي ذِكْرِ الْغِنَى ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنْ اتَّقَى ، عَزَّ وَجَلَّ وَالصِّحَّةُ لِمَنْ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى ، وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النِّعِيْمِ " (رواه احمد)
دولت اگر صلاح و تقوے کے ساتھ ہو ، تو وہ بھی اللہ کی نعمت ہے
رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ ہم چند آدمی ایک مجلس میں بیٹھے تھے، آنحضرت ﷺ بھی وہیں ہمارے پاس تشریف لے آئے، اور آپ کے سر مبارک پر اس وقت پانی کا اثر تھا (یعنی معلوم ہوتا تھا کہ آپ نے ابھی غسل فرمایا ہے) تو ہم میں سے کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت حضور کا مزاج بہت اچھا اور دل بہت خوش ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں (الحمدللہ ایسا ہی ہے) پھر اہل مجلس دولت مندی اور دنیوی خوشحالی کا کچھ تذکرہ کرنے لگے (کہ وہ اچھی چیز ہے یا بری اور دین اور آخرت کے لیے مضر ہے یا مفید) تو آپ نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے (اور اس کے احکام کی پابندی کرے) اس کے لیے مالداری میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں، اور صحت مندی صاحب تقویٰ کے لئے دولت مندی سے بھی بہتر ہے، اور خوش دلی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے (جس کا شکر واجب ہے)۔ (مسند احمد)

تشریح
پچھلے صفحات میں جو حدیثیں دولت کی مذمت اور فقر و زُہد کی فضیلت میں گزر چکی ہیں، اگرچہ ان کی تشریح میں جا بجا اشارہ کیا جا چکا ہے، کہ دولت صرف وہی خطرناک ہے جو خدا سے غفلت اور آخرت کی طرف سے بے پروائی پیدا کرے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو بلکہ بندہ اللہ کی توفیق سے دولت کے ذریعہ بھی اللہ کی رضا اور جنت کمائے تو پھر ایسی دولت خدا کی بڑی نعمت ہے۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں میں یہی مضمون صراحت اور وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ تشریح۔۔۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دولت مندی اور مالداری اگر تقویٰ کے ساتھ ہو، یعنی اللہ کا خوف، آخرت کی فکر، اور احکامِ شریعت کی پابندی نصیب ہو تو اس میں دین کے لیے کوئی خطرہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ اگر توفیق دے تو اس صورت میں یہی مال و دولت دین کی بڑی سے بڑی ترقیوں کا اور جنت کے اعلیٰ درجوں تک پہنچنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ حضرت عثمان ؓ کے مناقب و امتیازات میں کافی حصہ ان کے اس مال و دولت ہی کا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ اور بے حساب خرچ کیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے ایسے ہی موقعوں پر ان کے حق میں بڑی بڑی بشارتیں سنائی تھیں۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ دولتمندی کے ساتھ تقویٰ، یعنی خدا ترسی اور فکر آخرت اور اتباع شریعت کی توفیق کم ہی لوگوں کو ملتی ہے، ورنہ دولت کے نشہ میں اکثر لوگ بہک ہی جاتے ہیں۔ چوں بدولت برسی مست نگر دی مر دی
Top