معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 211
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ اَنَّ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ عَلَى حَصِيرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جسده فَقَالَ اِبْنِ مَسْعُوْدٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ اَمَرْتَنَا اَنْ نَبْسُطَ لَكَ وَنَعْمَلَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا أَنَا وَالدُّنْيَا إِنَّمَا أَنَا وَالدُّنْيَا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا » (رواه احمد والترمذى وابن ماجه)
میں اس دنیا میں اس مسافر کی طرح ہوں جو سایہ کے لیے کسی درخت کے نیچے بیٹھ گیا ہو
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) کھجور کی چٹائی پر سوئے، پھر جب سو کے آپ اُٹھے، تو جسم مبارک میں اس چٹائی کی بناوٹ کے نشانات پڑے ہوئے تھے (اس حالت کو دیکھ کر اور اس سے متاثر ہو کر) اس خادم ابن مسعودؓ نے عرض کیا کہ اگر حضور فرمائیں تو ہم حضرت کے لیے بستر کا انتظام کریں اور کچھ بنائیں (یعنی آپ سے اس کی اجازت چاہی) ارشاد فرمایا: مجھے دنیا سے (یعنی دنیا کے ساز و سامان اور اس کی راحتوں اور لذتوں سے) کیا تعلق اور کیا لینا! میرا تعلق دنیا کے ساتھ بس ایسا ہے جیسا کہ کوئی سوار مسافر کچھ دیر سایہ لینے کے لئے کسی درخت کے نیچے ٹھہرا اور پھر اس کو اپنی جگہ چھوڑ کر منزل کی طرف چل دیا۔

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح یہ مسافر درخت کے نیچے ٹھہرنے کے تھوڑے سے وقت کے لیے راحتوں کے انتظامات کرنا ضروری نہیں سمجھتا، اور منزل مقصود پر پہنچنے کی فکر کے سوا اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی، بس یہی میرا حال ہے۔ اور حق یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی حقیقت جس پر پوری طرح منکشف ہو جائے تو اس کا حال اس کے سوا کچھ اور ہو بھی نہیں سکتا۔ اس کو دنیا میں راحتں کے بڑے بڑے انتظامات کی فکر کرنا، اور اس کے لیے اپنے وقت اور اپنی صلاحیتوں کا صرف کرنا ایسا ہی کارِ حماقت معلوم ہو گا جیسا کہ درخت کے سایہ میں تھوڑی دیر کے لیے ٹھہرنے والے مسافر کا اس ذرا سے وقت کے لیے بڑے بڑے انتظامات میں مشغول ہونا۔
Top