معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 210
دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِيرٍ ، لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ ، قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ ، مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ ، فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ ، وَهُمْ لاَ يَعْبُدُونَ اللَّهَ ، فَقَالَ : « أَوَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الحَيَاةِ الدُّنْيَا » وَفِىْ رِوَايَةٍ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الآخِرَةُ . (رواه البخارى ومسلم)
خوشحالی کے لیے دُعا کی درخواست پر حضرت عمرؓ کو آپ کا جواب
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو ااس حالت میں دیکھا کہ کھجور کے پٹھوں سے بُنی ہوئی چٹائی پر آپ لیٹے ہوئے ہیں، اور اس کے اور آُ کے جسم مبارک کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے، اور چٹائی کی بناوٹ نے آپ کے پہلوئے مبارک پر گہرے نشانات ڈال دئیے ہیں اور سرہانے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال کوٹ کے بھری ہوئی ہے، یہ حالت دیکھ کے میں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ! اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ آپ کی امت کو فراخی اور خوش حالی عطا فرمائے، روم اور فارس والوں کو بھی اللہ نے فراخی دی ہے، حالانکہ وہ تو خدا پرست بھی نہیں ہیں۔ آ پ نے فرمایا: اب ابن خطاب! کیا تم بھی اس حال میں اور اس خیال میں ہو؟ یہ سب تو وہ لوگ ہیں (جو اپنی خدا فراموشی اور کافرانہ زندگی کی وجہ سے آخرت کی نعمتوں سے محروم و بے نصیب کئے گئے ہیں، اور اس لئے) ان کی وہ لذتیں (جو اللہ ان کو دینا چاہتا تھا) اسی دنیا میں ان کو دے دی گئی ہیں اور ایک روایت میں حضور ﷺ کا جواب اس طرح ذکر گیا گیا ہے، کہ آپ نے فرمایا اے عمرؓ! کیا تم اس پر راضی نہیں، کہ ان کے لیے دنیا کا عیش ہو، اور ہمارے لئے آخرت کا عیش۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کی فقرانہ زندگی اور اس کی تکلیفوں کو دیکھ کر حضرت عمرؓ کا دل دُکھا، اور یہ آرزو پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اتنی وسعت اور خوش حالی عطا فرما دیتے کہ یہ تکلیفیں نہ دیکھی جاتیں اور چونکہ حضور ﷺ کے متعلق جانتے تھے کہ آپ اپنے لئے دنیا کی وسعت اور دولت مندی کی دعا اللہ تعالیٰ سے نہیں کریں گے، اس لئے عرض یہ کیا کہ حضور اپنی امت کے لئے وسعت اور فراخی کی دعا فرمائیں اور اسی کے ساتھ اپنا یہ خیال بھی ظاہر کر دیا کہ دنیا کی وسعت و دولت جب ایسی معمولی چیز ہے کہ اللہ نے روم و فارس جیسی کافر قوموں کو بھی دے رکھی ہے تو آپ کی دعا سے آپ کی امت کو کیوں نہ عطا فرمائی جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اس گذارش پر بطور تنبیہ کے حیرت و استعجاب کے ساتھ فرمایا کہ اے فرزند خطاب کیا تم بھی ابھی حقیقت ناشناسی کے اس مقام پر ہو کہ ایسی بات کرتے ہو! روم و فارس وغیرہ کی یہ قومیں جو ایمان اور خدا پرستی سے محروم ہیں، ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ آخرت کی اس زندگی میں جو اصلی اور حقیقی زندگی ہے ان بے چاروں کو کچھ نہیں ملنا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ جو کچھ عیش و راحت ان کو دینا چاہتا تھا، وہ اسی دنیا میں دے دیا گیا ہے ایسی حالت میں ان کے عیش و آرام اور ان کی دولت مندی کو دیکھ کر اس پر للچانا اور اس کی حرص کرنا، حقیقت شناسی سے بہت بعید بات ہے، تم کو تو فکر و طلب بس آخرت کی ہونی چاہئے، جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، یہ دنیا تو بس چند روزہ قیام کی سرائے ہے، کیا یہاں کی تکلیف اور کیا یہاں کا عیش و آرام۔
Top