معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 209
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : « تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ ، بِثَلاَثِينَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ » (رواه البخارى)
جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حال میں وفات پائی کہ آپ کی زرہ ۳۰ صاع جَو کے بدلے ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔ (بخاری)

تشریح
ہمارے اکثر علماء کی تحقیق یہ ہے کہ ایک صاع قریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا تھا، اس حساب سے ۳۰ صاع جو قریب ڈھائی من کے ہوئے۔ حدیث کا مقصد اور منشا یہ ہے کہ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ کے بالکل آخری ایام میں بھی (جب کہ قریب قریب پورے عرب کے آپ فرمانروا بھی تھے) آپ کے گھر کے گذارہ خا حال یہ تھا کہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس اپنی قیمتی زرہ رہن رکھ کر آپ نے صرف ۳۰ صاع جَو وفات سے کچھ ہی پہلے قرض لئے تھے۔ مسلمانوں کو چھوڑ کر کسی یہودی سے قرض لینے کی مصلحت مدینہ کے مسلمانوں میں بھی ایسے متعدد افراد ہونے کے باوجود جن سے ایسے چھوٹے چھوٹے قرضے غالباً ہر وقت لئے جا سکتے تھے، کسی یہودی سے قرض لینے کی چند مصلحتیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے اہل محبت اور نیاز مندوں میں سے کسی کو اس حالت اور اس قسم کی ضرورت کا علم ہو، کیوں کہ پھر وہ بجائے قرض کے ہدیہ وغیرہ کے ذریعے آپ کی خدمت کرنا چاہتے اور اس سے ان پر بار پڑتا، نیز اس صورت میں ان سے قرض منگوانے میں ایک قسم کی طلب اور تحریک ہو جاتی۔ اور غالباً دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ اس شبہ اور شائبہ سے بھی بچنا چاہتے تھے، کہ آپکے ذریعہ اہل ایمان کو دین کی جو دولت ملی، اس کے عوض آپ کوئی حقیر سے حقیر بھی دنیوی فائدہ ان سے اٹھائیں، اسلئے مجبوری اور ضرورت کے موقع پر آپ قرض بھی غیر مسلموں سے لینا چاہتے تھے۔ تیسری مصلحت اس سے غالباً یہ بھی تھی کہ لین دین کے یہ تعلقات غیر مسلموں سے رکھنے میں ان کی آمدورفت اور ملنے جلنے کے مواقع پیدا ہوتے تھے اور اس کا راستہ کھلتا تھا، کہ وہ لوگ آپ کو اور آپ کی سیرت کو جانیں اور جانچیں اور ایمان اور رضائے الہی کی دولت سے وہ بھی بہرہ یاب ہوں۔ چنانچہ یہ نتائج ظہور میں بھی آئے، مشکوٰۃ ہی میں امام بیہقی کی " دلائل النبوۃ " کے حوالہ سے مدینہ کے ایک بڑے دولتمند یہودی کا یہ واقعہ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے کچھ قرض لیا تھا، وہ تقاضہ کو آیا، تو آپ نے عذر کیا کہ اس وقت ہم خالی ہاتھ ہیں اس لئے تمہارا قرضہ ادا کرنے سے آج مجبور ہیں، اس نے کہا کہ میں تو لئے بغیر نہیں جاؤں گا۔ چنانچہ جم کے وہیں بیٹھ گیا، یہاں تک کہ پورا دن گزر گیا اور رات بھی گزر گئی، اور حضور ﷺ نے اس دوران میں اس یہودی کی موجودگی ہی میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا فرمائیں، اور وہ نہیں ٹلا، بعض صحابہ کو اس کی یہ حرکت بہت ناگوار ہوئی اور انہوں نے چپکے چپکے اس کو ڈرایا دھمکایا، تا کہ وہ کسی طرح چلا جائے، رسول اللہ ﷺ کو جب اس کا پتہ چل گیا تو آپ نے فرمایا، کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ کسی معاہد پر کوئی ظلم و زیادتی نہ ہو، یہ سُن کر ان صحابہ کو بھی خاموش ہو جانا پڑا، پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد اس یہودی نے کہا، کہ دراصل میں روپیہ کے تقاضے کے لئے نہیں آیا تھا، بلکہ میں دیکھنا اور جانچنا چاہتا تھا کہ وہ اوصاف و علامات آپ میں موجود ہیں یا نہیں جو تورات میں آخری زمانے میں آنے والے پیغمبر کے بیان کئے گئے ہیں، اب میں نے دیکھ لیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ آپ ہی وہ نبی موعود ہیں، اس کے بعد اس نے کلمہ شہادت پڑھا ا ور اپنی ساری دولت حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا " هذا مالى فاحكم فيه بما اراك الله " یہ میرا سارا مال حاضر ہے، اب آپ اللہ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق اس کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرمائیں، اور جس مصرف میں چاہیں اس کو صرف فرمائیں۔ (مشکوٰۃ باب فی اخلاقہ وشمائلہ ﷺ)
Top