معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 200
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَوَّلُ صَلَاحِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِالْيَقِينِ وَالزُّهْدِ ، وَأَوَّلُ فَسَادِهَا بِالْبُخْلِ وَالْأَمَلِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
اس امت کے صلاح کی بنیاد یقین اور زہد ہے
روایت ہے عمرو بن شعیب سے، وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد شعیب سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اس امت کی پہلی نیکی اور بہترین یقین اور زُہد ہے اور اس کی پہلی خرابی بخل اور دنیا میں زیادہ رہنے کی آرزو ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اس امت کی صلاح و فلاح اور اس کے کمالات و ترقیات کی بنیاد اس کی دو صفتیں تھیں، ایک یقین اور دوسری زہد، اور جب امت میں بگاڑ شروع ہو گا تو سب سے پہلے یہی دو صفتیں اس میں سے جائیں گی، اور ان کی ضد بخل اور دنیا میں زیادہ رہنے کی آرزو آئے گی، اور اس کے بعد خرابیوں اور برائیوں کا نہ ختم ہونے ولا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور امت برابر گرتی ہی چلی جائے گی۔ شارحین نے جیسا کہ لکھا ہے: اس حدیث میں یقین سے مراد خاص اس حقیقت کا یقین ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتا ہے اور جو اچھی یا بری حالت کسی پر آتی ہے وہ اللہ کی طرف سے اور اللہ کے فیصلہ سے آتی ہے (۱) اور زہد کا مطلب جیسا کہ پہلے بھی معلوم ہو چکا ہے یہ ہے کہ دنیا سے دل نہ لگایا جائے، اور اس کی ناپائیدار لذتوں اور راحتوں کو مطلوب و مقصود نہ بنایا جائے، اور اس یقین اور زہد کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے حاصل ہو جانے کے بعد آدمی اللہ کے راستے میں اور اعلیٰ مقاصد کے لئے جان و مال خرچ کرنے میں بخل نہیں کرتا، یعنی صاحبِ یقین اور زاہد کے لیے کسی اچھے مقصد کے لیے اور اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مال خرچ کر دینا اور خطرات مین کود پڑنا آسان ہو جاتا ہے، اور یہی مومن کی ساری ترقیوں کی کنجی ہے، اور جب مومن ان صفات سے خالی ہو جائے، یعنی بجائے اللہ پر یقین کے اس کا یقین اپنے مال پر ہو جائے، اور وہ سمجھنے لگے کہ اگر مال میرے پاس ہو گا تو زندگی اچھی گذرے گی، اور مال نہ ہو گا تو میں تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاؤں گا، تو اس مین ضرور بخل پیدا ہو جائے گا، اور اسی طرح جب زہد کی صفت اس میں نہ رہے گی اور دنیا اس کی مطلوب و مقصود بن جائے گی تو اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ رہنے کی خواہش لازماً اس کے دل میں پیدا ہو جائے گی جس کو حدیث میں امل سے تعبیر کیا گیا ہے، اور ظاہر ہے کہ بخل اور امل پیدا ہو جانے کے بعد مومن اپنے اصل مقام سے گرتا ہی چلا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کی خاص غرض و غایت اور اس میں امت کے لیے خاص ہدایت یہ ہے کہ امت کی صلاح و فلاح کے لیے ضروری ہے کہ اس میں یقین اور زہد کی صفات پیدا کرنے کی اور ان ایمانی صفات کی حفاظت کی پوری فکر اور جدو جہد کی جائے، اور بخل اور امل (یعنی دنیا میں زیادہ رہنے کی آرزو) جیسی غیر ایمانی صفات سے اپنے قلوب کی حفاظت کی جائے، امت کی صلاح و فلاح اسی سے وابستہ ہے۔
Top