معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 195
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللَّهُ وَأَحَبَّنِي النَّاسُ؟ قَالَ « ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ ، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ » (رواه الترمذى وابن ماجه)
زہد اختیار کرو ، اللہ کے ، اور بندوں کے محبوب بن جاؤ گے
سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے ایسا کوئی عمل بتلائیے کہ جب میں اس کو کروں، تو اللہ بھی مجھ سے محبت کرے، اور اللہ کے بندے بھی مجھ سے محبت کریں، آپ نے فرمایا، کہ: دنیا کی طرف سے اعراض اور بے رخی اختیار کر لو، تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا، اور جو (مال و جاہ) لوگوں کے پاس ہے اس سے اعراض اور بے رُخی اختیار کر لو، تو لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ (ترمذی و ابن ماجہ)

تشریح
زُہد اور اُس کے ثمرات و برکات زُہد کے لغوی معنی کسی چیز سے بے رغبت ہو جانے کے ہیں، اور دین کی خاص اصطلاح میں آخرت کے لیے دنیا کے لذائذ و مرغوبات کی طرف سے بے رغبت ہو جانے اور عیش و تنعم کی زندگی ترک کر دینے کو زہد کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل سے بھی اور اپنے ارشادات میں بھی امت کو زہد کی بڑی ترغیب دی ہے، اور اس کے بہت کچھ دینوی و اخروی ثمرات و برکات بیان فرمائے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ دنیا کی محبت اور چاہت ہی آدمی سے وہ سارے کام کراتی ہے، جن کی وجہ سے وہ خدا کی محبت کے لائق نہیں رہتا، اس لیے اللہ کی محبت حاصل کرنے کی راہ یہی ہے کہ دنیا کی چاہت اور رغبت دل میں نہ رہے، جب دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی، تو دل اللہ کی محبت کے لیے فارغ ہو جائے گا، اور پھر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری ایسی خالص ہونے لگے گی، کہ وہ بندہ اللہ کو محبوب اور پیارا ہو جائے گا۔ اس طرح جب کسی بندہ کے متعلق عام طور سے لوگ یہ جان لیں کہ یہ ہماری کسی چیز میں حصہ نہیں چاہتا، نہ یہ مال کا طالب ہے، نہ کسی عہدہ اور منصب کا، تو پھر لوگوں کا اس سے محبت کرنا گویا انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔ فائدہ۔۔۔ زہد کے بارے میں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ جس شخص کے لیے دنیا کی لذتیں اور راحتیں حاصل کرنے کے مواقع ہی نہ ہوں، اور اس مجبوری کی وجہ سے وہ دنیا میں عیش نہ کرتا ہو، وہ زاہد نہیں ہے، زاہد وہ ہے جس کے لیے دنیا کے عیش و تنعم کے پورے مواقع میسر ہوں، مگر اس کے باوجود وہ اس سے دل نہ لگائے اور متنعمین کی سی زندگی نہ گذارے۔ کسی شخص نے حضرت عبداللہ بن مبارک کو زاہد کہہ کے پکارا، انہوں نے فرمایا، کہ: زاہد تو عمر بن عبدالعزیز تھے، کہ خلیفہ وقت ہونے کی وجہ سے دنیا گویا ان کے قدموں میں تھی، لیکن انہوں نے اس سے حصہ نہیں لیا۔
Top