معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 191
عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ قَالَتْ : قُلْتُ لِأَبِي الدَّرْدَاءِ : أَلَا تَبْتَغِي لِأَضْيَافَكَ مَا يَبْتَغِي الرِّجَالُ لِأَضْيَافِهِمْ؟ فَقَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنَّ أَمَامَكُمْ عَقَبَةً كَئُودًا , لَا يُجَاوِزُهَا الْمُثْقِلُونَ , فَأُحِبُّ أَنْ أَتَخَفَّفَ لِتِلْكَ الْعَقَبَةِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
خوش حالی چاہنے والی بیوی کو ابو الدرداء ؓ کا جواب
حضرت ابو الدرداء ؓ کی بیوی ام الدرداء سے روایت ہے کہ میں نے ابو الدرداء سے کہا، کہ: کیا بات ہے، تم مال و منصب کیوں نہیں طلب کرتے، جس طرح کہ فلان اور فلاں طلب کرتے ہین، انہوں نے فرمایا، کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، کہ تمہارے آگے ایک بڑی دشوار گذار گھاٹی ہے، اس کو گراں بار اور زیادہ بوجھ والے آسانی سے پار نہ کر سکیں گے۔ اس لئے میں یہی پسند کرتا ہوں کہ اس گھاٹی کو عبور کرنے کے لیے ہلکا پھلکا رہوں (اس وجہ سے میں اپنے لئے مال و منصب طلب نہیں کرتا)۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے اخیر دورِ حیات میں، اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کے زمانہ میں ایسی صورتیں پیدا ہو گئی تھیں کہ مختلف راہوں سے اموال آتے تھے، اور طالبین اور اہلِ حاجت کو تقسیم کئے جاتے تھے، اسی طرح بہت سے لوگوں کو خاص خدمات اور مناصب پر مقرر کیا جاتا تھا، اور ان کو اس خدمت اور کارکردگی پر وظیفہ ملتا تھا، جس سے ان کا گذارہ آسان ہو جاتا تھا۔ لیکن بعض صحابہ کرامؓ اس زمانہ میں بھی فقر و فاقہ کی زندگی ہی کو اپنے لیے پسند کرتے تھے، ان ہی میں سے حضرت ابو الدرداءؓ بھی تھے، وہ آخرت کے محاسبہ اور محاسبہ اور محشر کی تکلیفوں اور سختیوں سے امن اسی میں سمجھتے تھے کہ دنیا سے کم سے کم حصہ لیا جائے، ا ور بس کسی طرح زندگی بسر ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بتلایا تھا کہ آخرت کی دشوار گذار گھاٹیوں کو وہ ہی لوگ آسانی سے عبور کر سکیں گے جو دنیا میں ہلکے پھلکے رہیں گے، اور جو لوگ دنیا مین اپنے اوپر زیادہ بوجھ لاد لیں گے، وہ آسانی سے ان گھاٹیوں کو پار نہ کر سکیں گے۔
Top