معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 184
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَقُولُ الْعَبْدُ : مَالِي ، مَالِي ، إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ : مَا أَكَلَ فَأَفْنَى ، أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى ، أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى ، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ ، وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ " (رواه مسلم)
دولت میں بندے کا واقعی حصہ کیا ہے ؟
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال، حالانکہ اس کے مال میں سے جو واقعی اس کا ہے، وہ بس تین مدیں ہیں، ایک وہ جو اس نے کھا کے ختم کر دیا، دوسرے وہ جو پہن کر پُرانا کر ڈالا، اور تیسرے وہ جو اس نے راہِ خدا میں دیا، اور اپنی آخرت کے واسطے ذخیرہ کر لیا، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ بندہ دوسرے لوگوں کے لیے اس کو چھوڑ جانے والا ہے، اور خود یہاں سے ایک دن رخصت ہو جانے والا ہے۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ آدمی کے کمائے ہوئے اور جوڑے ہوئے مال میں سے واقعۃً اور حقیقۃً اس کا بس وہی ہے جو اس نے کھانے پہننے کی ضروریات میں یہاں اپنے اوپر خرچ کر لیا، یا راہِ خدا میں دے کے آخرت کے واسطے اللہ تعالیٰ کے یہاں جمع کر دیا، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ درحقیقت اس کا نہیں ہے۔ بلکہ ان وارثوں کا ہے جن کے لیے وہ اس کو چھوڑ جانے ولا ہے۔
Top