طالب آخرت کا قلب مطمئن رہتا ہے ، اور طالبِ دنیا کا دل پراگندہ اور غیر مطمئن
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جس شخص کی نیت اور اس کا مقصد اصلی اپنی سعی و عمل آخرت کی طلب ہو، تو اللہ تعالیٰ غنا (قلبی اطمینان، اور مخلوق کی نامحتاجی کی کیفیت) اس کے دل کو نصیب فرمادیں گے، اور اس کے پراگندہ حال کو درست فرما دیں گے۔ اور دنیا اس کے پاس خود بخود ذلیل ہو کر آئے گی۔ اور جس شخص کی نیت اور اپنی سعی و عمل سے جس کا خاص مقصد دنیا طلب کرنا ہو گا، اللہ تعالیٰ محتاجی کے آثار اس کی بیچ پیشانی میں اس کے چہرے پر پیدا کر دیں گے، اور اس کے حال کو پراگندہ کر دیں گے (جس کی وجہ سے اس کو خاطر جمعی کی راحت کبھی نصیب نہ ہوگی) اور (ساری تگ و دَو کے بعد بھی) یہ دنیا اس کو بس اسی قدر ملے گی جس قدر اس کے واسطے پہلے سے مقدر ہو چکی ہوگی۔ (اس حدیث کو حضرت انسؓ سے امام ترمذی نے روایت کیا ہے، اور امام احمد اور دارمی نے اس حدیث کو ابّان کی روایت سے حضرت زید بن ثابت انصاریؓ سے روایت کیا ہے)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو بندہ آخرت پر یقین رکھتے ہوئے آخرت کی فلاح ہی کو اپنا اصل مطلوب و مقصود بنا لیتا ہے تو اُس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے بارے میں اس کو قناعت نصیب فرما کر اس کے دل کو طمانیت اور جمعیت خاطر نصیب فرما دی جاتی ہے، اور دنیا میں سے جو کچھ اس کے لیے مقدر ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی راستہ سے خود اس کے پاس آ جاتا ہے۔ اور اس کے برعکس جو شخص دنیا کو اپنا اصل مقصود و مطلوب بنا لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ محتاجی اور پریشاں حالی اُس پر اس طرح مسلط کر دیتا ہے کہ دیکھنے والوں کو اس کے چہرے پر اور اس کی بیچ پیشانی میں اس کے آثار نظر آتے ہیں، اور دنیا کی طلب میں خون پسینہ ایک کر دینے کے بعد بھی اس طالب دنیا کو بس وہی ملتا ہے، جو پ ہلے ہی سے اس کے لیے مقدر ہے۔ پس جب واقعہ اور حقیقت یہ ہے تو بندہ کو چاہئے کہ آخرت ہی کو اپنا مقصود و مطلوب بنائے، اور دنیا کو بس ایک عارضی اور وقتی ضرورت سمجھ کر اس کی طرف اتنی ہی فکر کرے جتنی کہ کسی عاورضی وقتی چیز کی فکر ہونی چاہیے۔