معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 174
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْكِبِي ، فَقَالَ : « كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ » (رواه البخارى)
اپنے مسافر اور اس دنیا کو سرائے سمجھو
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے دونوں مونڈھے پکڑ کے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ: دنیا میں ایسے رہ جیسے کہ تو پردیسی ہے، یا راستہ چلتا مسافر۔ (صحیح بخاری)

تشریح
یعنی جس طرح کوئی مسافر پردیس کو اور رہ گذر کو اپنا اصلی وطن نہیں سمجھتا اور وہاں اپنے لئے لمبے چوڑے انتظامات نہیں کرتا، اسی طرح مومن کو چاہئے کہ اس دنیا کو اپنا اصلی وطن نہ سمجھے، اور یہاں کی ایسی فکر نہ کرے جیسے کہ یہاں ہی اس کو ہمیشہ رہنا ہے، بلکہ اس کو ایک پردیس اور رَہ گُذر سمجھے۔ واقعہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام انسانوں کو جیسا انسان بنانا چاہتے ہین، اور اپنی تعلیم و تربیت سے ان کی جو سیرت بنانا چاہتے ہیں، اس کی اساس و بنیاد یہی ہے کہ آدمی اس دنیوی زندگی کو بالکل عارضی اور چند روزہ زندگی سمجھے اور موت کے بعد والی زندگی کو اصلی اور مستقل زندگی یقین کرتے ہوئے اس کی فکر اور تیاری میں اس طرح لگا رہے، کہ گویا وہ زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے ہے، اور گویا وہ اسی دنیا میں ہے۔ جن لوگوں نے یہ بات جس درجے میں اپنے اندر پیدا کر لی، ان کی زندگی اور ان کی سیرت اسی درجے میں انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اور ان کی منشاء کے مطابق ہو گئی، اور جو لوگ اپنے میں یہ بات پیدا نہیں کر سکے، ان کی زندگی بھی وہ نہیں بن سکی۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ اپنے خطبات اور مواعظ میں اس بنیاد پر بہت زیادہ زور دیتے تھے۔
Top