معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 169
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ » (رواه مسلم)
دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے۔ (مسلم)

تشریح
قید خانہ کی زندگی کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ قیدی اپنی زندگی میں آزاد نہیں ہوتا، بلکہ ہر چیز میں دوسروں کے حکم کی پابندی کرنے پر مجبور ہوتا ہے، جب کھانے کو دیا گیا اور جو کچھ دیا گیا کھا لیا، جو پینے کو دیا گیا پی لیا، جہاں بیٹھنے کا حکم دیا گیا بیٹھ گیا، جہاں کھڑے ہونے کو کہا گیا بے چارہ کھڑا ہوگیا، الغرض قید خانہ مین اپنی مرضی بالکل نہیں چلتی، بلکہ چار و ناچار ہر معاملے میں دوسروں کے حکم کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح ایک دوسری خصوصیت قید خانہ کی یہ ہے کہ قیدی اس سے جی نہیں لگاتا، اور اس کو اپنا گھر نہیں سمجھتا، بلکہ ہر وقت اس سے نکلنے کا خواہش مند اور متمنی رہتا ہے۔ اور اس کے برعکس جنت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں جنتیوں کے لیے کوئی قانونی پابندی نہیں رہے گی، اور ہر جنتی اپنی مرضی کی زندگی گذارے گا، اور اس کی ہر خواہش اور ہر آرزو پوری ہوگی، نیز لاکھوں برس گذرنے پر بھی کسی جنتی کا دل جنت سے اور جنت کی نعمتوں سے نہیں اکتائے گا، اور نہ کسی کے دل میں جنت سے نکلنے کی خواہش پیدا ہوگی۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: وَفِيها مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنْتُمْ فِيها خالِدُونَ (رخرف 71: 43) جنت میں وہ سب کچھ ہے جس ک تمہارے دل چاہیں، اور جس کے نظارہ سے تمہاری آنکھوں کو لذت و سرور حاصل ہو، اور تم اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہو گے۔ اور سورہ کہف میں فرمایا گیا: لا يَبْغُونَ عَنْها حِوَلاً جنتی جنت سے کہیں اور منتقل ہونا نہ چاہیں گے۔ پس اس عاجز کے نزدیک اس حدیث میں ایمان والوں کو خاص سبق دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میں حکم و قانون کی پابندی کی قید خانہ والی زندگی گذاریں، اور دنیا سے جی نہ لگائیں، اور حقیقت پیشِ نظر رکھیں اس دنیا کو اپنی جنت سمجھنا، اور اس سے اپنا دل لگانا، اور اس کے عیش کو اپنا اصل مقصود و مطلب بنانا کافرانہ طریقہ ہے، پس یہ حدیث گویا ایک آئینہ بھی ہے، جس میں ہر مومن اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ اگر اس کے دل کا تعلق اس دنیا کے ساتھ وہ ہے جو قید خانہ کے ساتھ قیدی کا ہوتا ہے تو وہ پورا مومن ہے، اور اگر اس نے اس دنیا سے اپنا دل ایسا لگا لیا ہے کہ اس کو اپنا مقصود و مطلقب بنا لیا ہے، تو یہ حدیث بتائی ہے کہ اس کا یہ حال کارفرانہ ہے۔ دنیا فانی ہے اور آخرت غیر فانی، اس لئے آخرت کے طالب بنو
Top