معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 166
عَنْ مُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يَقُولُ : « وَاللهِ مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي الْيَمِّ ، فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ؟ » (رواه مسلم)
آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حقیقت
روایت ہے مستورد بن شداد سے، کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا، آپ فرماتے تھے کہ دنیا کی مثال آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی درمای میں ڈال کر نکال لے، اور پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے۔ (مسلم)

تشریح
رقاق کے سلسلہ کی حدیثیں آگے درج کی جا رہی ہیں، ان میں رسول اللہ ﷺ نے دنیا کی تحقیر اور مذمت کی ہے، اور بتلایا ہے کہ اللہ کے نزدیک اور آخرت کے مقابلہ میں یہ دنیا کس قدر حقیر اور بے قیمت ہے۔ چونکہ ہمارے اس زمانہ میں دنیا کے ساتھ لوگوں کا تعلق اور شغف و انہماک حد سے بڑھ گیا ہے، اور خالص دنیوی اور مادی ترقی کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دے دی گئی ہے، کہ غالباً! اس سے پہلے کبھی بھی اس کو اہمیت کا یہ مقام حاصل نہ ہوا ہو گا، اس لئے اب حالت یہ ہے کہ دنیا کی تحقیر اور مذمت کی بات بہت سے مسلمانوں کے دلوں میں بھی آسانی سے نہیں اترتی، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بعض وہ لوگ بھی جو مسلمانوں کے رہنما اور مصلح سمجھے جاتے ہیں، اور دین کے لحاظ سے ان کا شمار عوام میں نہیں بلکہ خواص میں ہوتا ہے، دنیا کی بے ثباتی اور بے وقعتی کے تذکرہ کو بے تکلف " رہبانیت اور غلط تصوف کی تبلیغ " کہہ دیتے ہیں۔ اور جب ان کے سامنے اس موضوع کی حدیثیں ذکر کی جائیں، تو منکرین حدیث کی طرح ان حدیثوں ہی کے بارہ میں وہ شکوک کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ اس لئے اس سلسلہ کی حدیثیں درج کرنے سے پہلے ہم بطورِ تمہید، ایمانی مسلّمات اور قرآن مجید کی روشنی میں اس مسئلہ پر کچھ اصولی گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ والله ولى التوفيق دنیا اور آخرت ۱۔ یہ دنیا جس میں ہم اپنی یہ زندگی گذار رہے ہیں، اور جس کو اپنی آنکھوں کانوں وغیرہ حواس سے محسوس کرتے ہیں، جس طرح یہ ایک واقعی حقیقت ہے، اسی طرح آخرت بھی جس کی اطلاع اللہ کے سب پیغمبروں نے دی ہے، وہ بھی ایک قطعی اور یقینی حقیقت ہے، اور اپنی زندگی کے اس دور میں ہمارا اس کو نہ دیکھنا اور نہ محسوس کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ میں ہونے کے زمانہ میں ہم اس دنیا کو نہیں دیکھتے تھے اور نہیں محسوس کر سکتے تھے، پھر جسطرح ہم نے یہاں آ کر اس دنیا کو دیکھ لیا اور زمین و آسمان کی وہ ہزاروں لاکھوں چیزیں یہاں ہمارے مشاہدے میں آ گئیں، جن کو ہم ماں کے پیٹ میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، اسی طرح مرنے کے بعد عالمِ آخرت میں پہنچ کر جنت و دوزخ کو اور اس عالم کی ان تمام چیزوں کو دیکھ لیں گے اور پالیں گے جن کی اطلاع اللہ کے پیغمبروں اور اللہ کی کتابوں نے دی ہے۔ الغرض ہماری یہ دنیا جس طرح ایک حقیقی عالم ہے۔ اسی طرح آخرت بھی مرنے کے بعد سامنے آ جانے والا ایک حقیقی اور بالکل واقعی عالم ہے۔ ہمارا اس پر ایمان ہے اور نقل و عقل کی روشنی میں ہم کو اس کے بارے میں الحمدللہ پورا وثوق اور اطمینان ہے۔ ۲۔ پھر دنیاکے بارے میں ہم کو یقین ہے کہ یہ اور اس کی ہر چیز فانی ہے، بہ خلاف آخرت کے کہ وہ غیر فانی اور جاودانی ہے، اور وہاں پہنچنے کے بعد انسان بھی غیر فانی بنا دیا جائے گا، یعنی اس کو کبھی ختم نہ ہونے والی دوعامی زندگی عطا فرما دی جائے گی، اسی طرح وہاں اللہ کے سعید اور خوش نصیب بندوں کو جو نعمتیں عطا ہوں گی ان کا سلسلہ بھی ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گا، اور کبھی منقطع نہ ہو گا، اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: " عَطَاءً (۱) غَيْرَ مَجْذُوذٍ " اور اسی طرح جن اشقیا کی بغاوت اور سرکشی اور کفر و استکبار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غضب اُن پر ہو گا۔ انکی تکلیفوں اور ان کے عذاب کا سلسلہ بھی کبھی ختم نہ ہو گا، جیسا کہ جہنمیوں کے بارے میں جابجا فرمایا گیا ہے: " خَالِدِينَ (۲) فِيهَا أَبَدًا " اور " (۳) وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ " اور " لا (۴) يُقْضى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذابِها " اسی طرح اللہ کے پیغمبروں اور اللہ کی کتابوں کی بتلائی ہوئی اس حقیقت پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی نعمتوں اور لذتوں کے مقابلے میں آخرت کی لذّتیں اور نعمتیں بے انتہا فائق ہیں، بلکہ اصلی لذتیں اور نعمتیں آخرت ہی کی ہیں، اور دنیا کی چیزوں کو اُن سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی فکر و سعی بس آخرت ہی کے لئے ہو، اور دنیا سے اس کا تعلق صرف ناگزیر ضرورت کے بقدر ہو۔ ۳۔ لیکن انسانوں کا عام حال یہ ہے کہ دنیا چونکہ ہر وقت ان کے سامنے ہے اور آخرت سراسر غیب اور آنکھوں سے اوجھل ہے، اس لئے اکثر و بیشتر ان حقیقتوں کے ماننے والوں پر بھی دنیا ہی کی فکر و طلب غالب رہتی ہے، گویا یہ انسانوں کی ایک قسم کی فطری کمزوری ہے۔ ان کا حال اس معاملہ میں بالکل اُن چھوٹے بچوں کا سا ہے جن کو بچپن میں اپنے کھیل کھلونوں سے دلچسپی ہوتی ہے، اور مستقبل کی زندگی کو خوشگوار اور شاندار بنانے والے تعلیمی تربیتی مشاغل ان کے لیے سب چیزوں سے زیادہ غیر دلچسپ بلکہ انتہائی شاق ہوتے ہیں، جن کے شفیق ماں باپ ان کو سمجھا بجھا کر ان اچھے کاموں کی طرف راغب کرتے رہتے ہیں جن میں لگ کر وہ کامیاب انسان بن سکتے ہیں، اور عزت و عافیت کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ ۴۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے پیغمبروں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں کے ذریعہ ہمیشہ انسانوں کی اس غلطی اور کمزوری کی اصلاح کی کوشش ہوتی رہی، اور آخرت کے مقابلہ میں دنیا کا جو درجہ ہے، اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کا جو مقام ہے وہ واضح کیا جاتا رہا ہے، مگر انسانوں سے اس بارہ میں غالباً ہمیشہ بچوں والی غلطی ہوتی رہی ہے۔ " (۱) بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقى (17) إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولى (18) صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسى (19) " ۵۔ قرآنِ پاک چونکہ اللہ کی طرف سے روئے زمین کے انسانوں کے لئے آخری ہدایت نامہ ہے، اس لئے اس م یں اور بھی زیادہ زور اور اہمیت کے ساتھ جا بجا مختلف عنوانات سے دنیا کی بے وقعتی اور ناپائیداری کو اور آخرت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ کہیں پر فرمایا گیا ہے: قُلْ مَتاعُ الدُّنْيا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقى (النساء 77: 4) اے پیغمبر ﷺ! آپ ان لوگوں کو بتلا دیجئے کہ دنیا کا سرمایہ تو بہت ہی قلیل ہے، اور آخرت بہتر ہے پرہیزگاروں کے لئے۔ کہیں ارشاد فرمایا گیا: وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلا تَعْقِلُونَ (الانعام 32: 6) اور دنیا کی زندگانی کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ بس (چند دنوں کا) کھیل تماشا ہے، اور آخرت کا گھر ہی بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو پرہیزگاری کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں (افسوس تم پر!) کیا تم اس بات کو سمجھتے نہیں؟ کہیں اور ارشاد ہے: إِنَّما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا مَتاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دارُ الْقَرارِ (المومن 39: 4) یہ دنیوی زندگانی (اور یہاں کا سازو سامان) تو بس چند دنوں کے استعمال کے لیے ہے اور آخرت ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ کہیں فرمایا گیا: وَفِي الْآخِرَةِ عَذابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوانٌ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلاَّ مَتاعُ الْغُرُورِ (الحديد 20: 57) اور آخرت میں (مجرموں اور باغیوں کے لیے) سخت ترین عذاب ہے، اور (جو بندے رضا اور مغفرت کے لائق ہیں) اُن کے لئے اللہ کی طرف سے بخشش اور رضا ہے۔ اور دنیوی زندگانی تو بس دھوکہ کا سرمایہ ہے۔ ۶۔ الغرض اللہ کی طرف سے آنے والے پیغمبروں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اور آخرت کی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی میں ان کو کامل فلاح و بہبود کے یوم تک پہنچانے کے لیے جن چند خاص نکتوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان دنیا کو بالکل حقیر اور بے قیمت سمجھے، اور اس سے زیادہ جہ نہ لگائے، اور اس کو اپنا مقصد و مطلوب نہ بنائے، بلکہ آخرت کو اپنی اصل منزل اور اپنا دوامی وطن یقین کرتے ہوئے اور دنیا کے مقابلہ میں اس کی جو قدر و قیمت اور جو اہمیت ہے اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وہاں کی کامیابی حاصل کرنے کی فکر کو اپنی تمام دنیوی فکروں پر غالب رکھے، پس انسان کی سعادت اور آخرت میں اس کی کامیابی کے لئے گویا یہ شرط ہے کہ دنیا اس کی نظر میں حقیر اور بے قیمت ہو، اور اس کے دل کا رُخ آخرت ہی کی طرف ہو، اور "اللهُمَّ لَا (1) عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ" اس کے دل اور اس کی روح کی صدا ہو۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ اپنے خطبات اور مجلسی ارشادات کے ذریعہ بھی اسی کی تعلیم دیتے تھے، اور ایمان لانے والوں کے دلوں پر اپنے عمل اور حال سے بھی اسی کا نقش کرتے تھے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کی جو احادیث اس باب میں درج ہوں گی، جن میں دنیا کی تحقیر اور مذمت کی گئی ہے، جن کامطلب و مقصد اسی روشنی میں سمجھنا چاہئے۔ ۷۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ قرآن و حدیث میں جس دنیا کی مذمت کی گئی ہے وہ آخرت کے مقابل والی دنیا ہے، اس لئے دنیا کے کاموں کی جو مشغولیت اور دنیا سے جو تمتع فکرِ آخرت کے تحت ہو اور آخرت کا راستہ اس سے کھوٹا نہ ہوتا ہو وہ مذموم اور ممنوع نہیں ہے، بلکہ وہ تو جنت تک پہنچنے کا زینہ ہے۔ اس تمہیدی مضمون کو ذہن میں رکھ کر اب پڑھئے آگے درج ہونے والی اس سلسلہ کی حدیثیں! تشریح۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں اتنی ہی بے حقیقت اور بے حیثیت ہے جتنا کہ دریا کے مقابلہ میں انگلی پر لگا ہوا پانی۔ اور دراصل یہ مثال بھی صرف سمجھانے کے لیے دی گئی ہے، ورنہ فی الحقیقت دنیا کو آخرت کے مقابلہ میں یہ نسبت بھی نہیں ہے۔ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب محدود اور متناہی ہے، اور آخرت لامحدود اور لامتناہی ہے، اور ریاضی کا مسلم مسئلہ ہے کہ محدود و متناہی اور لامحدود و لا متناہی کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہوتی، جب حقیقت یہ ہے، تو وہ شخص بڑا ہی محروم اور بہت ہی گھاٹے میں رہنے والا ہے جو دنیا کو حاصل کرنے کے لیے خوب جد و جہد کرتا ہے مگر آخرت کی تیاری کی طرف سے بے فکر اور بے پروا ہے۔
Top